زاہد امروز کی نظم

    وقت کے نام ایک خط

    زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے جو خواب مجھے آج دیکھنا تھا وہ اگلی پیدائش تک ملتوی کرنا پڑا ہے بچپن میں لگے زخم پر مرہم رکھنے کے لیے ڈاکٹر نے ابھی صرف وعدہ کیا ہے کل کے لیے سانسیں کماتے ہاتھ صبح تک چائے نہیں پی سکتے لیکن گھبراؤ نہیں سب کی یہی حالت ہے وہ بتا رہی تھی اس نے اپنی سہاگ رات تب ...

    مزید پڑھیے

    میرا کوئی دوست نہیں

    چیخیں مجھے کبھی رہا نہیں کرتیں مجھے معلوم ہے ہر منظر میں ایک چیخ چھپی ہے میں جہاں بھی جاتا ہوں کوئی نہ کوئی چیخ مجھے پہچان لیتی ہے میں اپنی خاموشی کی مخالف سمت خوف زدہ ہو کر بھاگنے لگتا ہوں اسی بوکھلاہٹ میں چیخوں کے کئی جھنڈ مجھے بھڑوں کی طرح گھیر لیتے ہیں بھاگتے ہوئے میں ...

    مزید پڑھیے

    میرا غصہ کہاں ہے؟

    میں آسمان کے ساتھ پھیلی شام کی نارنجی روشنی ہوں یا سورج کی آنکھ میں رینگتی سرخ دھار؟ کیا ہے میرا وجود؟ یوم عید قربان ہوتی بھیڑوں کا صبر یا ہیروں کے تعاقب میں کوئلہ کوئلہ پھرتی خواہش؟ میں سرما میں ابابیلوں کی مرجھائی روح ہوں یا سرمست درختوں کی چوٹیوں میں مدہوش ہوا؟ ہاں۔۔۔۔۔ میں ...

    مزید پڑھیے

    تضاد کی کاشت

    میں نے کئی رنگ کے سائے سونگھے ہیں مگر دیواروں پر کندہ کیے پھولوں میں کبھی خوشبو نہیں مہکی محبت روح میں تب اترتی ہے جب غموں کی ریت اور آنسوؤں سے ہم اپنے اندر شکستگی تعمیر کرتے ہیں جس قدر بھی ہنس لو نجات کا کوئی راستہ نہیں تم محبت کے گنہ گار ہو سو غم تمہاری ہڈیوں میں پھیلا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    چور دروازہ کھلا رہتا ہے

    میرے خواب زخمی ہوئے تو دنیا کے سارے ضابطے جھوٹے لگے میں نے زندگی کے لیے بھیک مانگی مگر آباد لمحوں کی پوجا کے لیے وقت کبھی میرے لیے نہ رکا مجھے ویسٹ پن سے اپنائیت محسوس ہوئی لوگ کاغذوں سے بنے کھلونے تھے جنہیں ہمیشہ خلاف مرضی ناچنا پڑا بھیگے ساحلوں کی ہوا میں خون ہی خون ...

    مزید پڑھیے

    کائناتی گرد میں برسات کی ایک شام

    ویسے تو پہاڑ زمین کا سکڑا ہوا لباس ہیں لیکن جب بارش ہوتی ہے ان کی سلوٹوں پر اجلاہٹ اگ آتی ہے سانپ کی دم سی سڑک پر چلتے ہوئے موسم مجھے اپنی کنڈلی میں قید کر لیتا ہے لہر در لہر منقسم پہاڑوں کا حسن رنگوں کی اس دھندلاہٹ میں پوشیدہ ہے جسے ہماری بیمار آنکھیں کبھی منعکس نہیں کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2