زاہد امروز کی نظم

    ہم اضافی مٹی سے بنے

    روشنی قتل ہوئی تو جسم خالی ہو گئے زندگی کا غبار ہی ہمارا حاصل ہے ہم نے پرائے گھروں کی راج گیری کی اور اپنی چھت کے خواب دیکھے ہمیں کب معلوم تھا سوئی دکانوں کی سیڑھیاں ہمارا تکیہ ہیں ہمارے نام اضافی مٹی پر لکھے گئے اور ہم فقط لوگوں کو دہراتے رہے ہم بے احتیاط لمحوں کا قصاص نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تم جا چکی ہو

    میرا دل دیر تک سوئے ہوئے منہ کی باس تھا جہاں تم خود رو پھول بن کر کھل اٹھی تھیں تمہارا منور وجود میری تاریک روح میں سرما کی دھوپ بنا تمہاری آنکھوں کی نمی سے کئی بہاروں نے خمار پیا جوتوں سے گری مٹی سے بنے میرے ہاتھ تمہاری تراشیدہ گولائیوں سے مل کر جنت کی جھیل بن گئے تمہارے سینے سے ...

    مزید پڑھیے

    زخمی خوابوں کی تیسری دنیا

    صدر مملکت نے اپنی دولت کو ضرب لگائی اور پرائے ملک میں ایک قبر کرائے پر لے لی تاکہ اس کی لاش محفوظ رہے روشنی نے دنیا کا سفر کیا مگر کسی عدالت میں انصاف نہ ملا کہ اندھے ترازو نے تو کبھی آنکھیں ہی نہیں کھولیں دیواریں تمام رات جاگتی رہیں سامان پڑا رہا لیکن گھروں سے لڑکیاں چرا لی ...

    مزید پڑھیے

    ادھوری موت کا کرب

    اس نے مجھ سے محبت کی میں نے اسے اپنا سینہ چھونے کو کہا اس نے میرا دل چوم کر مجھے امر کر دیا میں نے اس سے محبت کی اس نے مجھے دل چومنے کو کہا میں نے اس کا سینہ چھو کر اسے ہدایت بخشی ہم دونوں جدا ہو گئے جدائی نے ہمارے خواب زہریلے کر دیے یک سانسی موت اب ہماری پہلی ترجیح ہے تنہائی کا ...

    مزید پڑھیے

    ہرما فروڈٹ

    اس کو شک تھا خدا نے دو آدھے جسم عموداً جوڑ کے اس کو تعمیر کیا ہے جس میں اک حصہ اپنا اور ایک پرایا ہے وہ آدھے آدھے دو جسموں کا حاصل ہے وہ اکثر رات کے کالے چہرے سے ڈر جاتا تو اپنی ہی گود میں چھپ کر رونے لگتا خود سے باتیں کرتا دیواروں سے سر ٹکراتا اپنی تکمیل کی خاطر دونوں آدھے جسموں ...

    مزید پڑھیے

    میں اچھا فن کار نہیں

    پرندے مجھ سے دانا ہیں اپنی معصومیت زندہ رکھنے کے لیے ہجرت کر جاتے ہیں لومڑیاں اپنا دشمن پہچان لیتی ہیں بھیڑیں اپنی اون سے خواب بنتی رہتی ہیں لوگ اپنے مالکوں کی لعنت سمیٹ کر بھی ان کے قدم ماپتے رہتے ہیں جیسے بھی ہو زندہ رہنا ایک فن ہے زندگی کے کھیل میں اب تک میں اضافی کردار ہی ...

    مزید پڑھیے

    ایک عوامی نظم

    ہم خالی پیٹ سرحد پر ہاتھوں کی امن زنجیر نہیں بنا سکتے بھوک ہماری راتیں خشک کر دیتی ہے آنسو کبھی پیاس نہیں بجھاتے رجز قومی ترانہ بن جائے تو زرخیزی قحط اگانے لگتی ہے بچے ماں کی چھاتیوں سے خون چوسنے لگتے ہیں کوئی چہروں پہ پرچم نہیں بناتا اور یوم آزادی پر لوگ پھلجھڑیاں نہیں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    نیم لباسی کا نوحہ

    تمہاری محبت کو زندگی دینے کے لیے میں نے تو اپنے سارے بت توڑ لیے مگر تم نے جواباً اپنے کعبے پر غلاف چڑھا لیا فقط طواف سے میری تشفی نہیں ہو سکتی میں کیسے تمہارے اندر جھانکوں بے بسی نے مجھے مینڈک بنا دیا ہے میں اپنی ذات کے کنویں میں پڑا ہوں اور خواہش میرے خون میں رسی کی طرح لٹک رہی ...

    مزید پڑھیے

    تھوکا ہوا آدمی

    زندگی نے مجھے لکیر پر چلنا سکھایا میں نے منحرف ہونا سیکھ لیا اس کی اندام نہانی سانپ جننے میں مصروف رہی اور وہ انہیں مارنے میں وہ بھی کیا کرتی رات بھر میری جگہ اژدہام سویا رہا اپنی بے کاری سے تنگ آ کر میں اپنا عضو نیلا کرنے چلا آیا ایسا کرنا جرم ہے مگر کیا کیا جائے ایک بھوک مٹانے ...

    مزید پڑھیے

    اظہار کا متروک راستہ

    اظہار محبت کے لیے لازمی نہیں کہ پھول خریدے جائیں کسی ہوٹل میں کمرہ لیا جائے یا پرندے آزاد کیے جائیں اظہار محبت کے لیے تم اپنے بوسے کاغذ میں لپیٹ کر بھیج سکتی ہو جس طرح میں نے اپنے جذبے تمہیں پوسٹ کر دیے ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2