Zahid Farani

زاہد فارانی

زاہد فارانی کی غزل

    خشک لمحات کے دریا میں بہا دے مجھ کو

    خشک لمحات کے دریا میں بہا دے مجھ کو مرگ احساس کی سولی پہ چڑھا دے مجھ کو کون آ کر ترے انصاف کا مصداق بنے بے گناہی پہ اگر تو نہ سزا دے مجھ کو ایک پل میں یہ مرا رنگ اڑا دیتے ہیں راس آتے نہیں خوش رنگ لبادے مجھ کو یوں مجھے دیکھ کے چہرہ نہ چھپا ہاتھوں سے میں ترا جسم برہنہ ہوں قبا دے ...

    مزید پڑھیے

    کئی دلوں میں پڑی اس سے شور و شر کی طرح

    کئی دلوں میں پڑی اس سے شور و شر کی طرح ترا خیال ہے اڑتی ہوئی خبر کی طرح نہیں ہے تاب نظر کم عیار آنکھوں میں چمک رہا ہے وہ چہرہ دکان‌ زر کی طرح ہٹے گی گرد مہ و سال کس کے ہاتھوں سے زمانہ بند پڑا ہے قدیم در کی طرح خیال غیر نکلتا نہیں مرے دل سے کسی کے گھر میں یہ بیٹھا ہے اپنے گھر کی ...

    مزید پڑھیے

    وہی لڑکی وہی لڑکا پرانا

    وہی لڑکی وہی لڑکا پرانا کہیں ہوتا ہے یہ قصہ پرانا اکیلے پن میں اب اک تازگی ہے ہوا جاتا ہے ہر رشتہ پرانا جہان عقل کا انسان جاہل نیا جغرافیہ نقشہ پرانا جہاں دیکھو وہی فرسودہ منظر جدھر نکلو وہی رستہ پرانا نیا شاعر بھی الجھا ہے زباں میں یہ استادوں سے بھی نکلا پرانا نہ اکتاؤ جو ...

    مزید پڑھیے

    بساط شوق کے منظر بدلتے رہتے ہیں

    بساط شوق کے منظر بدلتے رہتے ہیں ہوا کے رنگ برابر بدلتے رہتے ہیں بتان رنگ بھی کچھ کم نہیں ہیولوں سے قدم قدم پہ یہ پیکر بدلتے رہتے ہیں چھپائے چھپتی نہیں ان سے کہنگی دل کی نئے لباس وہ ہر دم بدلتے رہتے ہیں رہی نہیں کبھی یک رنگ آسماں کی جبیں حروف لوح مقدر بدلتے رہتے ہیں قیام کرتا ...

    مزید پڑھیے

    تیرہ و تار زمینوں کے اجالے دریا

    تیرہ و تار زمینوں کے اجالے دریا ہم نے صحراؤں کے سینے سے نکالے دریا وادیاں آئیں تو آرام سے سو جاتے ہیں فاصلوں سے نہ کبھی ہارنے والے دریا چاہتے تھے کہ پھریں روئے زمیں پر ہر سو بن گئے راہ میں غاروں کے نوالے دریا تجھ سے چھٹنے پہ ترے دھیان کی آغوش ملی کر گیا مجھ کو سمندر کے حوالے ...

    مزید پڑھیے

    اسی کی دھن میں کہیں نقش پا گیا ہے مرا

    اسی کی دھن میں کہیں نقش پا گیا ہے مرا جو آ کے خواب میں در کھٹکھٹا گیا ہے مرا گزر گیا ہے جو پہلو بچا کے مجھ سے تو کیا نظر جھکا کے وہ گھر دیکھتا گیا ہے مرا ہوں مضطرب تری گم گشتہ آرزو کے لیے دکان دل سے در بے بہا گیا ہے مرا اسیر گنبد بے در پڑا ہوں مدت سے مرے ہی دل پہ وہ پہرہ بٹھا گیا ...

    مزید پڑھیے

    جہان تنگ میں تنہا ہوا میں

    جہان تنگ میں تنہا ہوا میں بہت اچھا ہوا رسوا ہوا میں مری آنکھوں کا پہچانا ہوا تو نگاہ دہر کا دیکھا ہوا میں ابھر آئی ہوا کی موج سر میں حریف‌ موجۂ دریا ہوا میں جبین آب کی تحریر دنیا حروف سنگ سے لکھا ہوا میں فنا کے ہاتھ میں میری بقا ہے خود اپنی خاک سے پیدا ہوا میں ہوئی وابستہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    گاڑی کی کھڑکی سے دیکھا شب کو اس کا شہر

    گاڑی کی کھڑکی سے دیکھا شب کو اس کا شہر چاروں اور تھا کالا جنگل بیچ میں اجلا شہر یاد نہ آتا کیوں گاؤں میں ہم کو بھی لاہور لوگ سمندر پار نہ پائیں اس سے اچھا شہر سچ ہے ہر اک ملک خدا کا دیس ہے ہر انساں کا لیکن اپنا شہر ہے یارو آخر اپنا شہر خواب میں سن کر جاگ اٹھتا ہوں ان کی چیخ ...

    مزید پڑھیے

    ستارے چپ ہیں کہ نغمہ سرا سمندر ہے

    ستارے چپ ہیں کہ نغمہ سرا سمندر ہے شب خموش کے دل کی صدا سمندر ہے سکوت لب کو صداؤں کا پیش رو سمجھو کہ رود بار کے آگے کھلا سمندر ہے وہ دیکھتا ہے مرے اضطراب کو ہنس کر میں تیز رو ہوں وہ ٹھہرا ہوا سمندر ہے مہہ‌ و نجوم دکھاتے ہیں آئنہ اس کو فلک کے سامنے چہرہ نما سمندر ہے مٹا چلے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا

    ہے میرے سر سے کوئی بوجھ اتارنے والا پکارتا ہے یہ ہر دم پکارنے والا پھرا ہے یوں وہ رخ آئنہ نما مجھ سے کوئی نہیں میری صورت سنوارنے والا بنا ہوں سینۂ دریا کا بوجھ مدت سے کوئی رہا ہی نہیں پار اتارنے والا بدلتی جاتی ہے حالت زمیں کے چہرے کی کہ آسماں ہے نیا روپ دھارنے والا اتر کے کار ...

    مزید پڑھیے