Zaheer Rahmati

ظہیرؔ رحمتی

ظہیرؔ رحمتی کی غزل

    آئینے مد مقابل ہو گئے

    آئینے مد مقابل ہو گئے درمیاں ہم ان کے حائل ہو گئے کچھ نہ ہوتے ہوتے اک دن یہ ہوا سیکڑوں صدیوں کا حاصل ہو گئے کشتیاں آ کر گلے لگنے لگیں ڈوب کر آخر کو ساحل ہو گئے اور احساس جہالت بڑھ گیا کس قدر پڑھ لکھ کے جاہل ہو گئے اپنی اپنی راہ چلنے والے لوگ بھیڑ میں آخر کو شامل ہو گئے تندرستی ...

    مزید پڑھیے

    بہت کچھ وصل کے امکان ہوتے

    بہت کچھ وصل کے امکان ہوتے شرارت کرتے ہم شیطان ہوتے سمٹ آئی ہے اک کمرے میں دنیا تو بچے کس طرح نادان ہوتے کسی دن عقدۂ مشکل بھی کھلتا کبھی ہم پر بھی تم آسان ہوتے خطا سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں فرشتے بن گئے انسان ہوتے ہر اک دم جاں نکالی جا رہی ہے ہم اک دم سے کہاں بے جان ہوتے

    مزید پڑھیے

    زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے

    زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے کون یہاں پر میلے کپڑے دھوتا ہے جس کے دل میں ہریالی سی ہوتی ہے سب کے سر کا بوجھ وہی تو ڈھوتا ہے سطحی لوگوں میں گہرائی ہوتی ہے یہ ڈوبے تو پانی گہرا ہوتا ہے صدیوں میں کوئی ایک محبت ہوتی ہے باقی تو سب کھیل تماشا ہوتا ہے دکھ ہوتا ہے وقت رواں کے ٹھہرنے ...

    مزید پڑھیے

    اشارے مدتوں سے کر رہا ہے

    اشارے مدتوں سے کر رہا ہے ابھی تک صاف کہتے ڈر رہا ہے بچانا چاہتا ہے وہ سبھی کو بہت مرنے کی کوشش کر رہا ہے سمندر تک رسائی کے لیے وہ زمانے بھر کا پانی بھر رہا ہے کہیں کچھ ہے پرانے خواب جیسا مری آنکھوں سے ظالم ڈر رہا ہے زمانے بھر کو ہے امید اسی سے وہ ناامید ایسا کر رہا ہے

    مزید پڑھیے

    دل لگا کر پڑھائی کرتے رہے

    دل لگا کر پڑھائی کرتے رہے عمر بھر امتحاں سے ڈرتے رہے ایک ادنیٰ ثواب کی خاطر جانے کتنے گناہ کرتے رہے جان پر کون دم نہیں دیتا صورت ایسی تھی لوگ مرتے رہے کوئی بھی راہ پر نہیں آیا حادثے ہی یہاں گزرتے رہے حیرتیں حیرتوں پہ وارفتہ جھیل میں ڈوبتے ابھرتے رہے آخرش ہم بھی اتنا سوکھ ...

    مزید پڑھیے

    خوشی سے اپنا گھر آباد کر کے

    خوشی سے اپنا گھر آباد کر کے بہت روئیں گے تم کو یاد کر کے خیال و خواب بھی ہیں سر جھکائے غلامی بخش دی آزاد کر کے جو کہنے کے لیے ہی آبرو تھی وہ عزت بھی گئی فریاد کر کے پرندے سر پہ گھر رکھے ہوئے ہیں مجھے چھوڑیں گے یہ صیاد کر کے یہاں ویسے بھی کیا آباد رہتا یہ دھڑکا تو گیا برباد کر ...

    مزید پڑھیے

    برگزیدہ ہیں ہواؤں کے اثر سے ہم بھی

    برگزیدہ ہیں ہواؤں کے اثر سے ہم بھی دیکھتے ہیں تجھے دنیا کی نظر سے ہم بھی اپنے رستے میں بڑے لوگ تھے رفتار شکن اور کچھ دیر میں نکلے ذرا گھر سے ہم بھی رات اس نے بھی کسی لمحے کو محسوس کیا لوٹ آئے کسی بے وقت سفر سے ہم بھی سب کو حیرت زدہ کرتی ہے یہاں بے خبری چونک پڑتے تھے یوں ہی پہلے ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی ہم درد اپنا کھو رہے ہیں

    یوں ہی ہم درد اپنا کھو رہے ہیں یہی رونا ہے ہم کیوں رو رہے ہیں قیامت خواب سے آنکھیں کھلی تھیں پھر آنکھیں کھول کر ہم سو رہے ہیں بہت زرخیز سیلاب بلا تھا یہاں اب خوب فصلیں بو رہے ہیں ہوائے وصل نے وہ خاک اڑائی ابھی تک ہاتھ منہ ہم دھو رہے ہیں دیے سارے بدن میں تیرتے ہیں کیوں اتنا پانی ...

    مزید پڑھیے

    پانی پانی رہتے ہیں

    پانی پانی رہتے ہیں خاموشی سے بہتے ہیں میری آنکھ کے تارے بھی جلتے بجھتے رہتے ہیں بیچارے معصوم دیے دکھ سانسوں کا سہتے ہیں جس کی کچھ تعبیر نہ ہو خواب اسی کو کہتے ہیں اپنوں کی ہمدردی سے دشمن بھی خوش رہتے ہیں مسجد بھی کچھ دور نہیں وہ بھی پاس ہی رہتے ہیں

    مزید پڑھیے