Zaheer Ghazipuri

ظہیرؔ غازی پوری

ظہیرؔ غازی پوری کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    کیا دعائے فرسودہ حرف بے اثر مانگوں

    کیا دعائے فرسودہ حرف بے اثر مانگوں تشنگی میں جینے کا اب کوئی ہنر مانگوں دھوپ دھوپ چل کر بھی جب تھکے نہ ہمراہی کیسے اپنی خاطر میں سایۂ شجر مانگوں آئنہ نوازی سے کچھ نہیں ہوا حاصل خود بنے جو آئینہ اب وہی ہنر مانگوں اک طرف تعصب ہے اک طرف ریاکاری ایسی بے پناہی میں کیا سکوں کا گھر ...

    مزید پڑھیے

    ہر غزل ہر شعر اپنا استعارہ آشنا

    ہر غزل ہر شعر اپنا استعارہ آشنا فصل گل میں جیسے شاخ گل شرارا آشنا خون تھوکا دل جلایا نقد جاں قربان کی شہر فن میں میں رہا کتنا خسارا آشنا کہہ گیا اپنی نظر سے ان کہے قصے بھی وہ بزم حرف و صوت میں جو تھا اشارا آشنا اپنے ٹوٹے شہپروں کے نوحہ گر تو تھے بہت دشت فن میں تھا نہ کوئی سنگ ...

    مزید پڑھیے

    ایسے لمحے پر ہمیں قربان ہو جانا پڑا

    ایسے لمحے پر ہمیں قربان ہو جانا پڑا ایک ہی لغزش میں جب انسان ہو جانا پڑا بے نیازانہ گزرنے پر اٹھیں جب انگلیاں مجھ کو اپنے عہد کی پہچان ہو جانا پڑا زندگی جب نا شناسی کی سزا بنتی گئی رابطوں کی خود مجھے میزان ہو جانا پڑا ریزہ ریزہ اپنا پیکر اک نئی ترتیب میں کینوس پر دیکھ کر حیران ...

    مزید پڑھیے

    آئنے میں خود اپنا چہرا ہے

    آئنے میں خود اپنا چہرا ہے پھر بھی کیوں اجنبی سا لگتا ہے جس پہ انسانیت کو ناز تھا کل اب وہ سب سے بڑا درندہ ہے فکر بھی ہے عجیب سا جنگل جس کا موسم بدلتا رہتا ہے کیسے اپنی گرفت میں آئے آگہی اک بسیط دریا ہے اس میں ظلمت پنپ نہیں سکتی ذہن سورج کی تاب رکھتا ہے وہ سمجھتا ہے آئنے کی ...

    مزید پڑھیے

    اترے تو کئی بار صحیفے مرے گھر میں

    اترے تو کئی بار صحیفے مرے گھر میں ملتے ہیں مگر صرف جریدے مرے گھر میں آواز میں لذت کا نیا شہد جو گھولیں اترے نہ کبھی ایسے پرندے مرے گھر میں نیزے تو شعاعوں کے رہے خون کے پیاسے نم دیدہ تھے دیوار کے سائے مرے گھر میں قندیل نوا لے کے سفر ہی میں رہا میں دھندلا گئے ارمانوں کے شیشے مرے ...

    مزید پڑھیے

تمام