Zaheer Dehlvi

ظہیرؔ دہلوی

ظہیرؔ دہلوی کے تمام مواد

37 غزل (Ghazal)

    ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے

    ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے عہد و پیماں ہیں یہی زیست میں پیمانے سے تو کہاں آئی مرا درد بٹانے کے لیے اے شب ہجر نکل جا مرے غم خانے سے کون ہوتا ہے مصیبت میں کسی کا دل سوز اٹھ گئی شمع بھی جل کر مرے کاشانے سے کچھ یہی کوہ کن و قیس پہ گزری ہوگی ملتی جلتی ہے کہانی مرے افسانے ...

    مزید پڑھیے

    دل کو دارالسرور کہتے ہیں

    دل کو دارالسرور کہتے ہیں جلوہ گاہ حضور کہتے ہیں نہ کہیں باوفا مجھے منہ سے ہاں وہ دل میں ضرور کہتے ہیں وہ مجھے اور کچھ کہیں نہ کہیں شیفتہ تو ضرور کہتے ہیں اک خدائی کہا کرے قہار ہم تو اس کو غفور کہتے ہیں پی کے دیکھی بھی حضرت واعظ آپ جس کو طہور کہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار

    حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار کہ گوش رکھتے ہیں سب سر بہ سر در و دیوار نوید مقدم فصل بہار سن سن کر اڑیں گے شوق میں بے بال و پر در و دیوار شب فراق میں گھر مجھ کو کاٹے کھاتا ہے بنا ہے اک سگ دیوانہ ہر در و دیوار تمہارے غم نے وہ صورت مری بنائی ہے کہ رو رہے ہیں مرے حال پر در و ...

    مزید پڑھیے

    نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں

    نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں لب پہ شیون نہیں نالہ نہیں فریاد نہیں نازنیں کوئی نئی بات تو پیدا ہو کبھی ظلم میں لطف ہی کیا ہے اگر ایجاد نہیں میں بشر ہوں مرے ملنے میں برائی کیا ہے آپ کچھ حور نہیں آپ پری زاد نہیں وائے تقدیر کہ جب خوگر آزار ہوئے وہ یہ فرماتے ہیں ہم مائل بیداد ...

    مزید پڑھیے

    واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے

    واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے بات کی بات میں توقیر بگڑ جاتی ہے چونک پڑتا ہوں خوشی سے جو وہ آ جاتے ہیں خواب میں خواب کی تعبیر بگڑ جاتی ہے کچھ وہ پڑھنے میں الجھتے ہیں مرا نامۂ شوق کچھ عبارت دم تحریر بگڑ جاتی ہے چارہ گر کیا مری وحشت سے جنوں بھی ہے بتنگ روز مجھ سے مری زنجیر بگڑ ...

    مزید پڑھیے

تمام