Zaheer Alam

ظہیر عالم

  • 1952

ظہیر عالم کی غزل

    مقدس درس گاہوں کی حرم کی اور شوالوں کی

    مقدس درس گاہوں کی حرم کی اور شوالوں کی اندھیرے میں قسم کھاتی ہے یہ دنیا اجالوں کی ذرا پہچان ان مجبور انسانوں کے چہروں کو جو غیرت کے سبب جرأت نہیں کرتے سوالوں کی تم اپنے عہد کی باتیں کہیں محفوظ کر لینا مؤرخ کو ضرورت پڑتی رہتی ہے حوالوں کی ہماری شخصیت پر دوستو پانی نہ پھر ...

    مزید پڑھیے

    پاؤں سے نکلی زمیں تو لاپتا ہو جاؤ گے

    پاؤں سے نکلی زمیں تو لاپتا ہو جاؤ گے تم ہوا میں مت اڑو ورنہ ہوا ہو جاؤ گے چلتے چلتے راستے میں موڑ آیا مڑ گئے ہم نے سوچا بھی نہیں تھا تم جدا ہو جاؤ گے دوسروں کے غم کو اپنا غم بنانا سیکھ لو لوگ پوجیں گے تمہیں تم دیوتا ہو جاؤ گے تم ہنسا بولا کرو بت بن کے مت بیٹھا کرو ورنہ بکنے والے ...

    مزید پڑھیے

    ایسے ویسوں کو یہاں ہم نہیں گنتے صاحب

    ایسے ویسوں کو یہاں ہم نہیں گنتے صاحب آپ اچھے ہیں بہت اچھے ہیں ہوں گے صاحب کس کے ملنے کی خوشی کس کے بچھڑنے کا غم ٹوٹتے رہتے ہیں مٹی کے کھلونے صاحب تہ بہ تہ گرد گناہوں کی جمی ہے اس پر جانماز اپنی ذرا اور جھٹکئے صاحب باتوں باتوں ہی میں کیا جان نکالو گے مری ہو چکی بات ذرا دور سرکیے ...

    مزید پڑھیے

    دشمن کے راستوں کا بھی پتھر ہٹائیں گے

    دشمن کے راستوں کا بھی پتھر ہٹائیں گے ہم چلتے پھرتے راہ میں نیکی کمائیں گے دشوار ہو گیا ہے کھلونے خریدنا اب کیسے بچے گڑیا کی شادی رچائیں گے پاپا کھلونے بیچ کے آٹا خرید لو بھوکے ہیں گھر کے لوگ یہ کس کام آئیں گے دن دوستوں میں کاٹ بھی لیں گے تو رات کو تنہائیوں میں آپ بہت یاد آئیں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ لگتی بھی نہیں ہے کہ جگا دیتا ہے

    آنکھ لگتی بھی نہیں ہے کہ جگا دیتا ہے کوئی دروازے کی زنجیر ہلا دیتا ہے گھر سے نکلو تو پتا جیب میں رکھ کر نکلو حادثہ چہرے کی پہچان مٹا دیتا ہے ہم جو بڑھتے ہیں کبھی امن کا پرچم لے کر راستوں میں کوئی بارود بچھا دیتا ہے تم صداقت کی گھنی چھاؤں میں پی کر دیکھو زہر سچائی کا امرت کا مزا ...

    مزید پڑھیے