Zaheer Ahmad Zaheer

ظہیر احمد ظہیر

  • 1941

ظہیر احمد ظہیر کی غزل

    رات بھر فرقت کے سائے دل کو دہلاتے رہے

    رات بھر فرقت کے سائے دل کو دہلاتے رہے ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے جاتے رہے سینکڑوں دل کش بہاریں تھیں ہماری منتظر ہم تری خواہش میں لیکن ٹھوکریں کھاتے رہے عمر بھر دیکھا نہ اپنے چاک دامن کی طرف بس تری الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتے رہے جن کی خاطر پی گئے رسوائیوں کا زہر بھی وہ بھری ...

    مزید پڑھیے

    جو ذہن و دل میں اکٹھا تھا آس کا پانی

    جو ذہن و دل میں اکٹھا تھا آس کا پانی اسے بھی لے گیا ساتھ اپنے یاس کا پانی میں لے کے آیا تھا ہمراہ جن کو دریا تک وہ لوگ پی گئے میری بھی پیاس کا پانی کب اپنے شہر میں سیلاب آنے والا تھا ہمیں ڈبو کے گیا آس پاس کا پانی ہزاروں عیب چھپانے کو لگ کے دنیا میں بدن پہ رکھتے ہیں زریں لباس کا ...

    مزید پڑھیے

    غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے

    غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے ظہیرؔ اب وہ زمانے حسب نسب کے گئے بہت غرور گلستاں میں تھا گلابوں کو تمہیں جو دیکھا تو ہوش و حواس سب کے گئے مچا ہے شور خزاں کا ہے رخ اسی جانب اگر یہ سچ ہے تو سمجھو کہ ہم بھی اب کے گئے خلوص سے نہ سہی رسم ہی نبھانے کو تم آ گئے ہو تو شکوے تمام لب کے ...

    مزید پڑھیے

    سوکھی زمیں کو یاد کے بادل بھگو گئے

    سوکھی زمیں کو یاد کے بادل بھگو گئے پلکوں کو آج بیتے ہوئے پل بھگو گئے آنسو فلک کی آنکھ سے ٹپکے تمام رات اور صبح تک زمین کا آنچل بھگو گئے ماضی کے ابر ٹوٹ کے برسے کچھ اس طرح مدت سے خشک آنکھوں کے جنگل بھگو گئے وقت سفر جدائی کے لمحات مضمحل اک بے وفا کی آنکھ کا کاجل بھگو گئے میں ...

    مزید پڑھیے