Zafar Tabish

ظفر تابش

ظفر تابش کی غزل

    گر گئے جب سبز منظر ٹوٹ کر

    گر گئے جب سبز منظر ٹوٹ کر رہ گیا میں اپنے اندر ٹوٹ کر سو رہے تھے شہر بھی جنگل بھی جب رو رہا تھا نیلا امبر ٹوٹ کر میں سمٹ جاؤں گا خود ہی دوستو میں بکھر جاتا ہوں اکثر ٹوٹ کر اور بھی گھر آندھیوں کی زد میں تھے گر گیا اس کا ہی کیوں گھر ٹوٹ کر رو رہا ہے آج بھی تقدیر پر سبز گنبد سے وہ ...

    مزید پڑھیے

    کتنے ہاتھ سوالی ہیں

    کتنے ہاتھ سوالی ہیں کتنی جیبیں خالی ہیں سب کچھ دیکھ رہا ہوں میں راتیں کتنی کالی ہیں منظر سے لا منظر تک آنکھیں خالی خالی ہیں اس نے کورے کاغذ پر کتنی شکلیں ڈھالی ہیں صرف ظفر تابشؔ ہیں ہم غالبؔ میرؔ نہ حالیؔ ہیں

    مزید پڑھیے

    بستی بستی جنگل جنگل گھوما میں

    بستی بستی جنگل جنگل گھوما میں لیکن اپنے گھر میں آ کر سویا میں جب بھی تھکن محسوس ہوئی ہے رستے کی بوڑھے برگد کے سائے میں بیٹھا میں کیا دیکھا تھا آخر میری آنکھوں نے چلتے چلتے رستے میں کیوں ٹھہرا میں جب بھی جھک کر ملتا ہوں میں لوگوں سے ہو جاتا ہوں اپنے قد سے اونچا میں ٹھنڈے موسم ...

    مزید پڑھیے

    آنگن انگن جاری دھوپ

    آنگن انگن جاری دھوپ میرے گھر بھی آری دھوپ کیا جانے کیوں جلتی ہے صدیوں سے بچاری دھوپ کس کے گھر تو ٹھہرے گی تو تو ہے بنجاری دھوپ اب تو جسم پگھلتے ہیں جاری جا اب جاری دھوپ چھپ گئی کالے بادل میں موسم سے جب ہاری دھوپ ہو جاتی ہے سرد کبھی اور کبھی چنگاری دھوپ آج بہت ہے ...

    مزید پڑھیے

    بظاہر یوں تو میں سمٹا ہوا ہوں

    بظاہر یوں تو میں سمٹا ہوا ہوں اگر سوچو تو پھر بکھرا ہوا ہوں مجھے دیکھو تصور کی نظر سے تمہاری ذات میں اترا ہوا ہوں سنا دے پھر کوئی جھوٹی کہانی میں پچھلی رات کا جاگا ہوا ہوں کبھی بہتا ہوا دریا کبھی میں سلگتی ریت کا صحرا ہوا ہوں جب اپنی عمر کے لوگوں میں بیٹھوں یہ لگتا ہے کہ میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں

    نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں آؤ خاموشیوں کے لب کھولیں بستیاں ہم خود ہی جلا آئے کسی برگد کے سائے میں سو لیں کچھ نئے رنگ سامنے آئیں آ کئی رنگ ساتھ میں گھولیں زرد منظر عجیب سناٹے کھڑکیاں کیوں گھروں کی ہم کھولیں راستے سہل ہیں مگر تابشؔ کون ہے ساتھ جس کے ہم ہو لیں

    مزید پڑھیے