ظفر صہبائی کی غزل

    بے حسی پر حسیت کی داستاں لکھ دیجئے

    بے حسی پر حسیت کی داستاں لکھ دیجئے دھوپ سے اب برف پر آب رواں لکھ دیجئے کاتب تقدیر ٹھہرے آپ کو روکے گا کون جو بھی انکر سر اٹھائے رائیگاں لکھ دیجئے آپ کی آنکھوں میں چبھ جائے گی ورنہ روشنی ہم چراغوں کے مقدر میں دھواں لکھ دیجئے مشتہر ہو جاؤں گا فرقہ پرستی کے لئے میری پیشانی پہ آپ ...

    مزید پڑھیے

    گل ہیں تو آپ اپنی ہی خوشبو میں سوچئے

    گل ہیں تو آپ اپنی ہی خوشبو میں سوچئے جو کچھ بھی سوچنا ہے وہ اردو میں سوچئے دل میں اگر نہیں ہے کسی زخم کی نمود سرخی کہاں سے آ گئی آنسو میں سوچئے یہ مسئلہ نہیں کہ جلیں گے کہاں چراغ کیسے ہوائیں آئیں گی قابو میں سوچئے یوں سرسری گزریے نہ اس دشت کرب سے وحشت کہ اضطراب ہے آہو میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا تحریر پاگل لکھ رہا ہے

    یہ کیا تحریر پاگل لکھ رہا ہے ہر اک پیاسے کو بادل لکھ رہا ہے نہ رو گستاخ بیٹے کے عمل پر ترا گزرا ہوا کل لکھ رہا ہے پڑھو ہر موج آیت کی طرح ہے وہ دریا پر مسلسل لکھ رہا ہے تھمے پانی کو تبدیلی مبارک ہوا کا ہاتھ ہلچل لکھ رہا ہے تجھے چھونا نرالا تجربہ تھا وہ جھوٹا ہے جو مخمل لکھ رہا ...

    مزید پڑھیے

    شب کے غم دن کے عذابوں سے الگ رکھتا ہوں

    شب کے غم دن کے عذابوں سے الگ رکھتا ہوں ساری تعبیروں کو خوابوں سے الگ رکھتا ہوں جو پڑھا ہے اسے جینا ہی نہیں ہے ممکن زندگی کو میں کتابوں سے الگ رکھتا ہوں اس کی تقدیس پہ دھبہ نہیں لگنے دیتا دامن دل کو حسابوں سے الگ رکھتا ہوں یہ عمل ریت کو پانی نہیں بننے دیتا پیاس کو اپنی سرابوں سے ...

    مزید پڑھیے

    رکھا ہے بزم میں اس نے چراغ کر کے مجھے

    رکھا ہے بزم میں اس نے چراغ کر کے مجھے ابھی تو سننا ہے افسانے رات بھر کے مجھے یہ بات تو مرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی ستائیں گے در و دیوار میرے گھر کے مجھے میں چاہتا تھا کسی پیڑ کا گھنا سایہ دعائیں دھوپ نے بھیجی ہیں صحن بھر کے مجھے وہ میرا ہاتھ تو چھوڑیں کہ میں قدم موڑوں بلا رہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2