ظفر صہبائی کی غزل

    جب ادھورے چاند کی پرچھائیں پانی پر پڑی

    جب ادھورے چاند کی پرچھائیں پانی پر پڑی روشنی اک نامکمل سی کہانی پر پڑی دھوپ نے کچے پھلوں میں درد کا رس بھر دیا عشق کی افتاد نا پختہ جوانی پر پڑی گرد خاموشی کی سب میرے دہن سے دھل گئی اس قدر بارش سخن کی بے زبانی پر پڑی اس نے اپنے قصر سے کب جھانک کر دیکھا ہمیں کب نظر اس کی ہماری بے ...

    مزید پڑھیے

    میں تمہیں پھول کہوں تم مجھے خوشبو دینا

    میں تمہیں پھول کہوں تم مجھے خوشبو دینا میرے بازو میں ذرا پیار سے بازو دینا آرزو چاند کی ہے ظرف سے بڑھ کر لیکن تیری فیاضی کی توہین ہے جگنو دینا ہر قدم مجھ کو چراغوں کی ضرورت ہوگی آپ تو زاد سفر میں مجھے آنسو دینا صبر تعمیر کی بنیاد ہے ربا میرے مجھ کو بپھرے ہوئے جذبات پہ قابو ...

    مزید پڑھیے

    عکس زخموں کا جبیں پر نہیں آنے دیتا

    عکس زخموں کا جبیں پر نہیں آنے دیتا میں خراش اپنے یقیں پر نہیں آنے دیتا اس لیے میں نے خطا کی تھی کہ دنیا دیکھوں ورنہ وہ مجھ کو زمیں پر نہیں آنے دیتا عمر بھر سینچتے رہنے کی سزا پائی ہے پیڑ اب چھاؤں ہمیں پر نہیں آنے دیتا جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے کوئی لکنت بھی کہیں پر ...

    مزید پڑھیے

    سبزہ سے سب دشت بھرے ہیں تال بھرے ہیں پانی سے

    سبزہ سے سب دشت بھرے ہیں تال بھرے ہیں پانی سے میرے اندر خالی پن ہے کس کی بے ایمانی سے اب کے اپنی چھت بھی کھلی ہے دیواروں میں در ہیں بہت بارش دھوپ ہوا جو چاہے آ جائے آسانی سے سچائی ہمدردی یاری یوں ہم میں سے چلی گئی جیسے خود کردار خفا ہو جائیں کسی کہانی سے چہرے پر جو کچھ بھی لکھا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی کوئی چہرہ یہ کام کرتا ہے

    کبھی کبھی کوئی چہرہ یہ کام کرتا ہے مرے بدن میں لہو تیز گام کرتا ہے ہر ایک لفظ کو ماہ تمام کرتا ہے مری زبان سے جب وہ کلام کرتا ہے کئی دنوں کے سفر سے میں جب پلٹتا ہوں وہ اپنے پورے بدن سے کلام کرتا ہے بہت عزیز ہیں اس کو بھی چھٹیاں میری وہ روز کوئی نیا اہتمام کرتا ہے شکایتوں کی ادا ...

    مزید پڑھیے

    اے ہم سفر یہ راہ بری کا گمان چھوڑ

    اے ہم سفر یہ راہ بری کا گمان چھوڑ کس نے کہا ہے تجھ سے قدم کے نشان چھوڑ پھر دیکھ زندگی کے مزے تجربوں کے رنگ باہر قدم نکال ذرا سائبان چھوڑ اب دوستی نہیں نہ سہی دشمنی سہی کوئی تو رابطے کی کڑی درمیان چھوڑ اس کی وفائیں صرف ہواؤں کے ساتھ ہیں یہ اعتماد دوستیٔ بادبان چھوڑ تلوار کی ...

    مزید پڑھیے

    ہرے پتو سنہری دھوپ کی قربت میں خوش رہنا

    ہرے پتو سنہری دھوپ کی قربت میں خوش رہنا مگر ممکن نہیں ہے ایک سی حالت میں خوش رہنا مگن رہتے ہیں یہ بوڑھے شجر اپنی کتھاؤں میں انہیں آتا ہے اپنے ذہن کی جنت میں خوش رہنا ہم انسانوں کو پھر جینے کا مقصد ہی نہیں ملتا لکھا ہوتا جو اس نے سب کی ہی قسمت میں خوش رہنا یہ آنسو چار دن کے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    چلچلاتی دھوپ نے غصہ اتارا ہر جگہ

    چلچلاتی دھوپ نے غصہ اتارا ہر جگہ چڑھ گیا اونچائی پر ذہنوں کا پارا ہر جگہ اس زمیں پر ہم جہاں بھی ہیں وہاں تاراج ہیں آج کل گردش میں ہے اپنا ستارا ہر جگہ اپنی کیا گنتی فرشتے بھی وہاں مارے گئے خواہشوں نے مینکا کا روپ دھارا ہر جگہ مانگ لیتی ہے ہوا اچھے مواقع دیکھ کر اک نہ اک مٹھی ...

    مزید پڑھیے

    بدن پر سبز موسم چھا رہے ہیں

    بدن پر سبز موسم چھا رہے ہیں مگر ارمان سب مرجھا رہے ہیں پرانے غم کہاں ہجرت کریں گے دکانوں پر نئے غم آ رہے ہیں غلطیاں اگلے وقتوں سے ہوئی ہیں مگر صدیوں سے ہم پچھتا رہے ہیں یہاں ہے بوریا اب بھی ندارد بہت دن بعد وہ گھر آ رہے ہیں میاں بیرون و باطن ایک رکھو منافق بھی ہمیں سمجھا رہے ...

    مزید پڑھیے

    امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت

    امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت کہ شہر بھر میں سگ‌ درد چیختا ہے بہت ہر ایک زخم سے زخموں کی کونپلیں پھوٹیں جو باغ تم نے لگایا تھا اب ہرا ہے بہت ذرا سی نرم روی سے پہنچ گئے دل تک تناؤ تھا تو سمجھتے تھے فاصلہ ہے بہت جو دم گھٹے تو شکایت نہ کیجیئے صاحب کہ سانس لینے کو زہروں بھری ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2