ظفر نسیمی کی غزل

    عشق میں برباد ہونے پر پشیمانی تو ہے

    عشق میں برباد ہونے پر پشیمانی تو ہے پھر بھی میری قدر و قیمت اس نے پہچانی تو ہے سانس لینا بھی جہاں مشکل ہے اس ماحول میں مجھ کو زندہ دیکھ کر لوگوں کو حیرانی تو ہے غم گساری میری عادت بن گئی ہے کیا کروں دوسروں کا غم اٹھانے میں پریشانی تو ہے ہاتھ ان سے بھی ملانے کے لیے تیار ...

    مزید پڑھیے

    شجر بولتے ہیں حجر بولتے ہیں

    شجر بولتے ہیں حجر بولتے ہیں سفر میں مرے ہم سفر بولتے ہیں میں تنہا بھی رہتا ہوں محو تکلم مرے گھر کے دیوار و در بولتے ہیں زباں کو اجازت نہ ہو بولنے کی تو بے ساختہ بال و پر بولتے ہیں اگر مسئلے انجمن میں نہ سلجھیں تو میداں میں تیر و تبر بولتے ہیں خدا اس طرف ہے خدائی ادھر ہے ثنا ...

    مزید پڑھیے

    ہائے کیا پر فریب سازش ہے

    ہائے کیا پر فریب سازش ہے شہر کا شہر نذر آتش ہے جام جمشید زیر گردش ہے دیکھتے جائیے نمائش ہے عام ظلم و ستم کا چرچا کیوں خاص لطف و کرم کی بارش ہے پوچھتی ہے زبان خنجر کی کیا ابھی زندگی کی خواہش ہے خوف و دہشت کے سونے جنگل میں صبر و ہمت کی آزمائش ہے عقل کے دشمنوں کو کیا کہیے علم کے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی چہرہ تر و تازہ نہیں ہے

    کوئی چہرہ تر و تازہ نہیں ہے گلوں پہ گرد ہے غازہ نہیں ہے بظاہر امن ہے گلیوں میں لیکن کھلا کوئی بھی دروازہ نہیں ہے عذابوں کی صعوبت جھیلتا ہوں گناہوں کا تو خمیازہ نہیں ہے مجھے سکوں سے تولا جا رہا ہے مری قیمت کا اندازہ نہیں ہے ظفرؔ اس دور میں بھی جی رہا ہوں ابھی بکھرا یہ شیرازہ ...

    مزید پڑھیے

    رسوائی کے خیال سے ڈر تو نہیں گئے

    رسوائی کے خیال سے ڈر تو نہیں گئے وہ راستہ بدل کے گزر تو نہیں گئے ترک تعلقات سے تم کو بھی کیا ملا ہم بھی غم فراق سے مر تو نہیں گئے ہم پہ ترس نہ کھا ہمیں لاچار دیکھ کر ہم ٹوٹ بھر گئے ہیں بکھر تو نہیں گئے دریا کے پار اتر کے جلائی ہیں کشتیاں ناکام لوٹ کے کبھی گھر تو نہیں گئے دور خزاں ...

    مزید پڑھیے

    روز بدلی ہوئی دنیا کی فضا دیکھتے ہیں

    روز بدلی ہوئی دنیا کی فضا دیکھتے ہیں آج کس سمت میں چلتی ہے ہوا دیکھتے ہیں جو بھی ہوتا ہے وہ ہوتا ہے امیدوں کے خلاف دل میں کیا سوچتے ہیں آنکھ سے کیا دیکھتے ہیں پہلے سنتے تھے کہیں قتل ہوا ہے کوئی اب تو یہ کھیل شب و روز کھلا دیکھتے ہیں ہم کہیں آگ بجھانے کے لیے نکلے تھے واپس آئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا تھا کہ دے گا مجھے اجالے کون

    میں سوچتا تھا کہ دے گا مجھے اجالے کون یہ کر گیا مہ و انجم مرے حوالے کون نیا جریدۂ شعر و ادب نکالے کون یہاں خرید کے پڑھتا ہے خود رسالے کون چہار سمت منڈیروں پہ زاغ بیٹھے ہیں نہ جانے چھین لے معصوم کے نوالے کون پلا کے خون جگر دوستوں کو دیکھ لیا اب اور دشمن جاں آستیں میں پالے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب لطف محبت کی داستان میں ہے

    عجیب لطف محبت کی داستان میں ہے وفا کا تذکرہ دنیا کی ہر زبان میں ہے نہ وہ زمیں پہ کہیں ہے نہ آسمان میں ہے پرندہ اس لیے محفوظ ہے اڑان میں ہے نشاط سایہ نے معذور کر دیا اس کو وہ کیسے دھوپ میں نکلے جو سائبان میں ہے نصیب دیکھیے مالک تو ہو گیا بے گھر کرایہ دار ابھی تک اسی مکان میں ...

    مزید پڑھیے

    آ گئی پھر ان کو میری یاد کیا

    آ گئی پھر ان کو میری یاد کیا کر لیا تازہ ستم ایجاد کیا کم ستم تھی یورش بغداد کیا اب نشانہ ہے مرے جلاد کیا دوستوں میں آج کیسے آ گئے ہل گئی تنہائی کی بنیاد کیا صدیوں پہلے کے وہی میں اور تم ورنہ شیریں کون ہے فرہاد کیا میری تخلیقات کیا دیں گی مجھے کام آتی ہے کبھی اولاد کیا میں تو ...

    مزید پڑھیے

    نہ چھیڑ نام و نسب اور نسل و رنگ کی بات

    نہ چھیڑ نام و نسب اور نسل و رنگ کی بات کہ چل نکلتی ہے اکثر یہیں سے جنگ کی بات تمہارے شہر میں کس کس کو آئنہ دکھلائیں ہزار طرح کے چہرے ہزار رنگ کی بات ہر ایک بات پہ طعنہ ہر ایک بات پہ طنز کبھی تو یار کیا کر کسی سے ڈھنگ کی بات میں اس کے وعدۂ فردا پہ کیا یقیں کرتا ہنسی میں ٹال گیا ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2