Zafar Mehdi

ظفر مہدی

ظفر مہدی کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    میرے قبضے میں لب کشائی ہے

    میرے قبضے میں لب کشائی ہے اب اسیری نہیں رہائی ہے باب گلشن کھلا جو اس سے ملے گل صد برگ آشنائی ہے اک مسلسل سفر میں رہتا ہوں مجھ کو شوق شکستہ پائی ہے ذکر اس کا رہے گا محشر تک جس نے آواز حق سنائی ہے ان کا دامن بھی آج تر دیکھا وہ جنہیں زعم پارسائی ہے منزلوں پر پہنچ کے رک جانا وجہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی ہر بات نئی چاہتا ہے

    دل کی ہر بات نئی چاہتا ہے یعنی تنہا سفری چاہتا ہے جس کو منزل کی تمنا ہی نہیں صرف بے راہروی چاہتا ہے اپنے ہمسائے کی خاطر یہ دل گھر کی دیوار گری چاہتا ہے تنگ اتنا ہوا آسائش سے پھر سے وہ در بدری چاہتا ہے جس کے قبضے میں ہے شہرت ساری بس وہی اپنی نفی چاہتا ہے بے خودی کا ہے یہ عالم کہ ...

    مزید پڑھیے

    فکر انگیز انتشار میں ہیں

    فکر انگیز انتشار میں ہیں جب سے ہم میرؔ کے دیار میں ہیں خود سے بے باک گفتگو کر کے ایک اک لفظ کے حصار میں ہیں عکس کے ساتھ آئنے بولیں ایسے لمحے کے انتظار میں ہیں کون ان کا شمار جانے ہے کتنے دریا جو آبشار میں ہیں اب کوئی کس کا احتساب کرے جب سبھی ایک ہی قطار میں ہیں ان کو لطف خزاں ...

    مزید پڑھیے

    بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا

    بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا کرشمہ ہے دل ناشاد کا یوں شاد ہو جانا کوئی حالت نہیں رہتی ہے یکساں دیدہ و دل میں کبھی زنجیر ہو جانا کبھی آزاد ہو جانا بڑی بے انت ہمت چاہئے راہ محبت میں یہ ظاہر یوں کوئی مشکل نہیں فریاد ہو جانا اگر بے سود ہو سب آہ و زاری سامنے اس کے تو پھر خاموش ...

    مزید پڑھیے

    میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں

    میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں ہوا پر آشیانہ چاہتا ہوں جو ہمت ہے تو میرے ساتھ آؤ افق کے پار جانا چاہتا ہوں جو منت کش نہیں ہیں بال و پر کے پرندے وہ اڑانا چاہتا ہوں نگوں کر دے جو طوفانوں کا سر بھی چراغ ایسا جلانا چاہتا ہوں سکوں بخشے جو ہر آشفتہ سر کو غزل ایسی سنانا چاہتا ہوں نظر آ ...

    مزید پڑھیے

تمام