ظفر کلیم کی غزل

    بخت جاگے تو جہاں دیدہ سی ہو جاتی ہے

    بخت جاگے تو جہاں دیدہ سی ہو جاتی ہے شخصیت اور بھی سنجیدہ سی ہو جاتی ہے گو ہمہ وقت نئی لگتی ہے دنیا لیکن شے پرانی ہو تو بوسیدہ سی ہو جاتی ہے کون ہے وہ کہ جسے موند لوں آنکھیں دیکھوں آنکھ کھل جائے تو پوشیدہ سی ہو جاتی ہے کھیل ہی کھیل میں لڑکی وہ شرارت والی بات ہی بات میں سنجیدہ سی ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکی سے مہتاب نہ دیکھو

    کھڑکی سے مہتاب نہ دیکھو ایسے بھی تم خواب نہ دیکھو ڈوب رہے سورج میں یارو دن کی آب و تاب نہ دیکھو ہرجائی ہیں لوگ یہاں کے اس بستی کے خواب نہ دیکھو اندر سے ہم ٹوٹ رہے ہیں باہر کے اسباب نہ دیکھو فن دیکھو بس ملاحوں کا دریا کے سیلاب نہ دیکھو سچے سپنے دو آنکھوں کو جھوٹے ہوں وہ خواب نہ ...

    مزید پڑھیے

    ان دنوں میں غربتوں کی شام کے منظر میں ہوں

    ان دنوں میں غربتوں کی شام کے منظر میں ہوں میری چھت ٹوٹی پڑی ہے دوسروں کے گھر میں ہوں آئے گا اک دن مرے اڑنے کا موسم آئے گا بس اسی امید پر میں اپنے بال و پر میں ہوں جسم کی رعنائیوں میں ڈھونڈتے ہو تم مجھے اور میں کب سے تمہاری روح کے پیکر میں ہوں دیکھتے ہیں سب نظر آتی ہوئیں ...

    مزید پڑھیے

    نوائے حق پہ ہوں قاتل کا ڈر عزیز نہیں

    نوائے حق پہ ہوں قاتل کا ڈر عزیز نہیں پڑے جہاد تو اپنا بھی سر عزیز نہیں پڑا ہوا ہوں سر رہ گزر تو رہنے دے تری گلی سے زیادہ تو گھر عزیز نہیں فقیر شہر کو لعل و گہر سے کیا نسبت مرے عزیز مجھے مال و زر عزیز نہیں پھلوں کو لوٹ کے لے جاؤ پیڑ مت کاٹو شجر عزیز ہے مجھ کو ثمر عزیز نہیں وہ لوگ ...

    مزید پڑھیے

    ہو چکی ہجرت تو پھر کیا فرض ہے گھر دیکھنا

    ہو چکی ہجرت تو پھر کیا فرض ہے گھر دیکھنا اپنی فطرت میں نہیں پیچھے پلٹ کر دیکھنا اب وہ برگد ہے نہ وہ پنگھٹ نہ اب وہ گوپیاں ایسے پس منظر میں کیا گاؤں کا منظر دیکھنا جادۂ گل کی مسافت ہی نہیں ہے زندگی زندگی کرنا ہے انگاروں پہ چل کر دیکھنا اپنے مخلص دوستوں پر وار میں کیسے کروں کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2