ظفر کلیم کی غزل

    سرد رتوں میں لوگوں کو گرمی پہنچانے والے ہاتھ

    سرد رتوں میں لوگوں کو گرمی پہنچانے والے ہاتھ برف کے جیسے ٹھنڈے کیوں ہیں اون بنانے والے ہاتھ مٹی کے پیالوں میں ہر دن صبح سے اپنی شام کریں رنگ برنگے پھولوں سے گلدان سجانے والے ہاتھ ایسے تھے حالات کہ چھوٹا ان کا میرا ساتھ مگر یاد بہت آتے ہیں وہ چوڑی کھنکانے والے ہاتھ دفتر سے میں ...

    مزید پڑھیے

    پھولا پھلا شجر تو ثمر پر بھی آئے گا

    پھولا پھلا شجر تو ثمر پر بھی آئے گا لیکن اسی لحاظ سے پتھر بھی آئے گا حالات جب بھی شہر کے فلمائے جائیں گے پردے پہ میرے قتل کا منظر بھی آئے گا بے چہرہ پھر رہا ہوں مگر اس یقیں کے ساتھ آئینہ میرے قد کے برابر بھی آئے گا کب تک کوئی چھپے گا عداوت کے غار میں دشمن کبھی تو سامنے کھل کر بھی ...

    مزید پڑھیے

    کھل گئیں آنکھیں کہ جب دنیا کا سچ ہم پر کھلا

    کھل گئیں آنکھیں کہ جب دنیا کا سچ ہم پر کھلا اپنے اندر سب کھلے ہیں کون ہے باہر کھلا قتل سے پہلے ذرا چیخوں پہ اک مقتول کی کچھ دریچے تو کھلے لیکن نہ کوئی در کھلا تنگ ہو جائے زمیں بھی اب تو کوئی غم نہیں ہم فقیروں کے لئے ہے آسماں سر پر کھلا آدمی کے ظاہر و باطن میں کتنا فرق ہے آج دوران ...

    مزید پڑھیے

    بات مہندی سے لہو تک آ گئی

    بات مہندی سے لہو تک آ گئی گفتگو اب تم سے تو تک آ گئی اب وہ شغل چاک دامانی کہاں اب طبیعت تو رفو تک آ گئی جان جائے یار ہے اب ڈر نہیں بات اپنی آبرو تک آ گئی آرزو تھی جس کو پانے کی ہمیں جستجو اس آرزو تک آ گئی بوٹے بوٹے سے نمایاں ہے بہار ڈالی ڈالی رنگ و بو تک آ گئی وصل کی شب اور اتنی ...

    مزید پڑھیے

    گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا

    گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا وہ یوں ملے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا کرم کرے گا مرے حال پر مگر پہلے شرارتاً وہ مجھے غم شناس کر دے گا شگفتگیٔ چمن پر بہت غرور نہ کر خزاں کا دور تجھے بد حواس کر دے گا گیا وہ دور کہ جب خار بھی مہکتے تھے یہ دور وہ ہے جو پھولوں کو ناس کر دے گا وہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو سمجھو نہ حرف غلط کی طرح

    مجھ کو سمجھو نہ حرف غلط کی طرح ثبت ہو جاؤں گا دستخط کی طرح غور سے پڑھ رہا ہوں زمانے تجھے اپنے محبوب کے پہلے خط کی طرح وہ ہمیشہ نگاہوں میں تنہا رہا صاف پانی میں شفاف بط کی طرح ہم نے پتھر سے ہیرے تراشے ظفرؔ دست قدرت کے بے مثل قط کی طرح

    مزید پڑھیے

    طبع روشن کو مری کچھ اس طرح بھائی غزل

    طبع روشن کو مری کچھ اس طرح بھائی غزل جب بھی میں تنہا ہوا ہوں مجھ کو یاد آئی غزل جب بھی دن ڈوبا ہوئی فکر سخن لاحق مجھے شام ہوتے ہی مرے ساغر میں در آئی غزل یاد جب آئے مجھے بچھڑے ہوئے ساتھی مرے کانپتے ہونٹوں کی ہر سلوٹ پہ لہرائی غزل پھول سی آنکھوں میں انگارے لیے پھرتا ہوں میں رات ...

    مزید پڑھیے

    چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں

    چل پڑے تو پھر اپنی دھن میں بے خبر برسوں لوٹ کر نہیں دیکھا ہم نے اپنا گھر برسوں جادۂ حوادث میں چل کے دیکھ لے کوئی کیسے طے کیا ہم نے موت کا سفر برسوں برگ و بار پر اس کے حق نہیں ہمارا ہی اپنے خون سے سینچا ہم نے جو شجر برسوں جو صدف سمندر کی تہہ میں چھان سکتے تھے ڈھونڈتے رہے وہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے نکالے پاؤں تو رستے سمٹ گئے

    گھر سے نکالے پاؤں تو رستے سمٹ گئے ہم یوں چلے کہ راہ کے پتھر بھی ہٹ گئے ہم نے کھلے کواڑ پہ دستک سنی مگر وہ کون لوگ تھے کہ جو آ کر پلٹ گئے در بند ہی رکھو کہ ہواؤں کا زور ہے اب کے کھلے کواڑ تو سمجھو کہ پٹ گئے غارت گریٔ زور تلاطم ارے غضب کشتی کے بادبان ہواؤں سے پھٹ گئے صحرا کی تیز ...

    مزید پڑھیے

    سمٹوں تو صفر سا لگوں پھیلوں تو اک جہاں ہوں میں

    سمٹوں تو صفر سا لگوں پھیلوں تو اک جہاں ہوں میں جتنی کہ یہ زمین ہے اتنا ہی آسماں ہوں میں میرے ہی دم قدم سے ہیں قائم یہ نغمہ خوانیاں گلزار ہست و بود کا طوطیٔ خوش بیاں ہوں میں مجھ ہی میں ضم ہیں جان لے دریا تمام دہر کے قطرہ نہ تو مجھے سمجھ اک بحر بیکراں ہوں میں نازاں ہے خد و خال پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2