ظفر حمیدی کی غزل

    اپنے دل مضطر کو بیتاب ہی رہنے دو

    اپنے دل مضطر کو بیتاب ہی رہنے دو چلتے رہو منزل کو نایاب ہی رہنے دو تحفے میں انوکھا زخم حالات نے بخشا ہے احساس کا خوں دے کر شاداب ہی رہنے دو وہ ہاتھ میں آتا ہے اور ہاتھ نہیں آتا سیماب صفت پیکر سیماب ہی رہنے دو گہرائی میں خطروں کا امکاں تو زیادہ ہے دریائے تعلق کو پایاب ہی رہنے ...

    مزید پڑھیے

    جھیل میں اس کا پیکر دیکھا جیسے شعلہ پانی میں

    جھیل میں اس کا پیکر دیکھا جیسے شعلہ پانی میں زلف کی لہریں پیچاں جیسے ناگ ہو لپکا پانی میں چاندنی شب میں اس کے پیچھے جب میں اترا پانی میں چاندی اور سیماب لگا تھا پگھلا پگھلا پانی میں کتنے رنگ کی مچھلیاں آئیں للچاتی اور بل کھاتی قطرہ قطرہ میری رگوں سے خون جو ٹپکا پانی میں روشن ...

    مزید پڑھیے

    میں زندگی کا نقشہ ترتیب دے رہا ہوں

    میں زندگی کا نقشہ ترتیب دے رہا ہوں پھر اک جدید خاکہ ترتیب دے رہا ہوں ہر ساز کا ترنم یکسانیت نما ہے اک تازہ کار نغمہ ترتیب دے رہا ہوں جس میں تری تجلی خود آ کے جا گزیں ہو دل میں اک ایسا گوشہ ترتیب دے رہا ہوں لمحوں کے سلسلے میں جیتا رہا ہوں لیکن میں اپنا خاص لمحہ ترتیب دے رہا ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی وہ مجھ سے ملا رونے لگا

    جب بھی وہ مجھ سے ملا رونے لگا اور جب تنہا ہوا رونے لگا دوستوں نے ہنس کے جب بھی بات کی وہ ہنسا پھر چپ رہا رونے لگا جب بھی میرے پاؤں میں کانٹا چبھا پتہ پتہ باغ کا رونے لگا آبیاری کے لیے آیا تھا کون ہر شجر مرجھا گیا رونے لگا چاند نکلا جب محرم کا کہیں چپ سے دشت کربلا رونے لگا اس پہ ...

    مزید پڑھیے

    میرے نازک سوال میں اترو

    میرے نازک سوال میں اترو ایک حرف جمال میں اترو نقش بندی مجھے بھی آتی ہے کوئی صورت خیال میں اترو پھینک دو دور آج سورج کو خود ہی اب ماہ و سال میں اترو خوب چمکو گی آؤ شمشیرو میرے زخموں کے جال میں اترو کچھ تو لطف تضاد آئے گا میرے غار زوال میں اترو خواہ پت جھڑ کی ہی ہوا بن کر پیڑ کی ...

    مزید پڑھیے

    تو خود بھی نہیں اور ترا ثانی نہیں ملتا

    تو خود بھی نہیں اور ترا ثانی نہیں ملتا پیغام ترا تیری زبانی نہیں ملتا میں بیچ سمندر میں ہوں اور پیاس سے بیتاب پینے کو تو اک بوند بھی پانی نہیں ملتا دنیا کے کرشموں میں معمہ تو یہی ہے دنیا کے کرشمات کا بانی نہیں ملتا میرا بھی تو اک دوست تھا غم بانٹنے والا اب دشت بلا میں وہی جانی ...

    مزید پڑھیے

    کیوں میں حائل ہو جاتا ہوں اپنی ہی تنہائی میں

    کیوں میں حائل ہو جاتا ہوں اپنی ہی تنہائی میں ورنہ اک پر لطف سماں ہے خود اپنی گہرائی میں فطرت نے عطا کی ہے بے شک مجھ کو بھی کچھ عقل سلیم کون خلل انداز ہوا ہے میری ہر دانائی میں جھوٹ کی نمکینی سے باتوں میں آ جاتا ہے مزا کوئی نہیں لیتا دلچسپی پھیکی سی سچائی میں اپنے تھے بیگانے تھے ...

    مزید پڑھیے