دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک
دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک مشکل ہے کچھ آساں نہیں سیدھا مسلک سچ بول کے کیا حسین بننا ہے تجھے اتنا سچ بول دال میں جیسے نمک
ممتاز قبل از جدید شاعر جنہوں نے نئی غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ مرزا غالب کی مخالفت کے لئے مشہور
One of most inspiring pre-modern poets who laid foundations for modern ghazal. Known for his sustained denunciation of Mirza Ghalib and contemporary poetry in Lucknow.
دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک مشکل ہے کچھ آساں نہیں سیدھا مسلک سچ بول کے کیا حسین بننا ہے تجھے اتنا سچ بول دال میں جیسے نمک
موجوں سے لپٹ کے پار اترنے والے طوفان بلا سے نہیں ڈرنے والے کچھ بس نہ چلا تو جان پر کھیل گئے کیا چال چلے ہیں ڈوب مرنے والے
منزل کا پتا ہے نہ ٹھکانہ معلوم جب تک نہ ہو گمراہ نہ آنا معلوم کھو لیتا ہے انسان تو کچھ پاتا ہے کھویا ہی نہیں تو نے تو پانا معلوم
کوئی تجھ کو پکارتا جاتا ہے کوئی ہمت ہی ہارتا جاتا ہے کوئی تہہ کو سدھارتا جاتا ہے دریا ہے کہ موجیں مارتا جاتا ہے
واللہ یہ زندگی بھی ہے قابل دید اک طرفہ طلسم دید جس کی نہ شنید منزل کی دھن میں جھومتا جاتا ہوں پیچھے تو اجل ہے آگے آگے امید
بے درد ہو کیا جانو مصیبت کے مزے ہیں رنج کے دم قدم سے راحت کے مزے دوزخ کی ہوا تو پہلے کھا لو صاحب کیا ڈھونڈتے ہو ابھی سے جنت کے مزے
درد اپنا کچھ اور ہے دوا ہے کچھ اور ٹوٹے ہوئے دل کا آسرا ہے کچھ اور ایسے ویسے خدا تو بہتیرے ہیں میں بندہ ہوں جس کا وہ خدا ہے کچھ اور
رونا ہے بدا جنہیں وہ جم جم روئیں جب عیش مہیا ہو تو ہم کیوں کھوئیں فردا معلوم و راز فردا معلوم رات اپنی ہے پھر کیوں نہ مزے سے سوئیں
صبح ازل و شام ابد کچھ بھی نہیں اک وسعت موہوم ہے حد کچھ بھی نہیں کیا جانئے کیا ہے عالم کون و فساد دعوے تو بہت کچھ ہیں سند کچھ بھی نہیں
دیکھے ہیں بہت چمن اجڑتے بستے کیا کیا گل پیرہن لٹے ہیں سستے اے زندہ دلان باغ اتنا نہ ہنسو آنسو بھی نکل آتے ہیں ہنستے ہنستے