بادل کو لگی کھلتے برستے کچھ دیر
بادل کو لگی کھلتے برستے کچھ دیر دل کو نہ لگی اجڑتے بستے کچھ دیر بچوں کی طرح موم ہوا ہوں ایسا روتے کچھ دیر ہے نہ ہنستے کچھ دیر
ممتاز قبل از جدید شاعر جنہوں نے نئی غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ مرزا غالب کی مخالفت کے لئے مشہور
One of most inspiring pre-modern poets who laid foundations for modern ghazal. Known for his sustained denunciation of Mirza Ghalib and contemporary poetry in Lucknow.
بادل کو لگی کھلتے برستے کچھ دیر دل کو نہ لگی اجڑتے بستے کچھ دیر بچوں کی طرح موم ہوا ہوں ایسا روتے کچھ دیر ہے نہ ہنستے کچھ دیر
ہاں اے دل ایذا طلب آرام نہ لے بدنام نہ ہو مفت کا الزام نہ لے ہاتھ آنا سکے پھول تو کانٹے ہی سہی ناکام پلٹنے کا کبھی نام نہ لے
حیران ہے کیوں راز بقا مجھ سے پوچھ میں زندۂ جاوید ہوں آ مجھ سے پوچھ مرتے ہیں کہیں دلوں سے بسنے والے جینا ہے تو موت کی دوا مجھ سے پوچھ
دیکھوں کب تک گلوں کی یہ تشنہ لبی فطرت کا گلہ کروں تو ہے بے ادبی پیاسے تو ہیں جاں بہ لب مگر ابر کرم دریا پہ برستا ہے زہے بوالعجبی
مفلس کو مزہ زیست کا چکھنے نہ دیا اس نقد شباب کو پرکھنے نہ دیا دنیا سے لپٹتے تو لپٹتے کیوں کر پٹھے پہ کبھی ہاتھ تو رکھنے نہ دیا
واعظ کو مناسب نہیں رندوں سے تنے منبر پہ لتاڑ دیں اگر دل میں ٹھنے اچھے ہیں یگانہؔ یا برے جیسے ہیں یاروں نے بنا دیا کہ خود ایسے بنے
دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو یا جیتے ہی جی مردوں سے ناتا جوڑو کیوں ٹھوکریں کھانے کو پڑے ہو بے کار بڑھنا ہے بڑھو نہیں تو رستہ چھوڑو
چھٹ بھیوں کی شاعری کا یہ زور یہ شور ایسوں کو کہے گا کون میدان کا چور شاعر ہیں یا مشاعروں کے ٹہیے سن پائی کوئی طرح لگانے لگے زور
مشکل کوئی مشکل نہیں جینے کے سوا خاموش لہو کا گھونٹ پینے کے سوا کھلتے ہیں جبھی جوہر تسلیم و رضا جب کوئی سپر ہی نہ ہو سینے کے سوا
پروانے کہاں مرتے بچھڑتے پہنچے دیوانہ صفت ہوا سے لڑتے پہنچے پیاس آگ میں کود کر بجھانے والے دھن کے پکے تھے گرتے پڑتے پہنچے