ایسا نہ ہو حق کا سامنا ہو جائے
ایسا نہ ہو حق کا سامنا ہو جائے سارا یہ طلسمات ہوا ہو جائے کیا کرتا ہے سچ پہ جان دینے والے یاروں کا مزا نہ کرکرا ہو جائے
ممتاز قبل از جدید شاعر جنہوں نے نئی غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ مرزا غالب کی مخالفت کے لئے مشہور
One of most inspiring pre-modern poets who laid foundations for modern ghazal. Known for his sustained denunciation of Mirza Ghalib and contemporary poetry in Lucknow.
ایسا نہ ہو حق کا سامنا ہو جائے سارا یہ طلسمات ہوا ہو جائے کیا کرتا ہے سچ پہ جان دینے والے یاروں کا مزا نہ کرکرا ہو جائے
زنجیر سے ہونے کا نہیں دل بھاری ہوں پاؤں میں کتنی ہی سلاسل بھاری کعبہ کا سفر ہی کیا ہے گھر سے در تک دل سے دل تک مگر ہے منزل بھاری
کیوں مطلب ہستی و عدم کھل جاتا کیوں راز طلسم کیف و کم کھل جاتا کانوں نے جو سن لیا وہی کیا کم ہے آنکھیں کھلتیں تو سب بھرم کھل جاتا
چارہ نہیں کوئی جلتے رہنے کے سوا سانچے میں فنا کے ڈھلتے رہنے کے سوا اے شمع تری حیات فانی کیا ہے جھونکا کھانے سنبھلتے رہنے کے سوا
ممکن نہیں اندیشۂ فردا کم ہو ہاں تشنۂ غفلت ہو تو ایذا کم ہو ٹلنے کی نہیں قیامت اچھا نہ ٹلے منہ پھیر لو اپنا کہ یہ دھڑکا کم ہو
اپنی حد سے گزر گئے اب کیا ہے منجدھار سے پار اتر گئے اب کیا ہے اے شوق وصال اے تمنائے سکوں دونوں پلے تو بھر گئے اب کیا ہے
امکان طلب سے کوئی آگاہ تو ہو منزل کا تہ دل سے ہوا خواہ تو ہو چل پھر کے ذرا دیکھ جھجکتا کیا ہے مل جائے گی راہ راست گمراہ تو ہو
دل کو حد سے سوا دھڑکنے نہ دیا قالب میں روح کو پھڑکنے نہ دیا کیا آگ تھی سینے میں جسے فطرت نے روشن تو کیا مگر بھڑکنے نہ دیا
ارمان نکلنے کا مزہ ہے کچھ اور اور رشک سے جلنے کا مزہ ہے کچھ اور ہاں یاد ہے دوست سے لپٹنا لیکن دشمن کو کچلنے کا مزہ ہے کچھ اور
دنیا طلبی جائے گی کیا جان کے ساتھ کیسی یہ بلا لگی مسلمان کے ساتھ کیسا قرآن اور کہاں کا ایمان ایمان رہا طاق پہ قرآن کے ساتھ