Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی نظم

    جنگل

    کیڑے پیڑوں کے جنگل میں پتوں کی کالی دیواریں دیواروں میں لاکھوں روزن روزن آنکھیں ہیں جنگل کی وحشی آنکھیں ہیں جنگل کی تو راہی انجان مسافر جنگل کا آغاز نہ آخر سب رستے ناپید ہیں اس کے سب راہیں مسدود سراسر تو راہی جگنو سا پیکر ہار چکا جنگل سے لڑ کر اب آنسو کا دیا جلائے تو گم کردہ راہ ...

    مزید پڑھیے

    بندھن

    درخت دن رات کانپتے ہیں پرند کتنے ڈرے ہوئے ہیں فلک پہ تارے زمیں پہ جگنو گھروں کے اندر چھپے خزانے کٹے پھٹے سب بدن پرانے قدیم چکنی طویل ڈوری میں بندھ گئے ہیں کثیف ڈر کی غلیظ مٹھی میں آ گئے ہیں کہاں گئے وہ دلوں کے بندھن گلاب ہونٹوں کی نرم قوسیں زمیں جو راکھی سی بن کے سورج کے ہاتھ پر ...

    مزید پڑھیے

    عنکبوت

    تہہ در تہہ جنگل کے اندر اس کا اک چھوٹا سا گھر تھا اور خود جنگل شب کے کالے ریشم کے اک تھان کے اندر دبا پڑا تھا چر مر سی آواز بنا تھا اور شب گورے دن کے مکڑی جال میں جکڑی اک کالی مکھی کی صورت لٹک رہی تھی میں کیا کرتا مجبوری سی مجبوری تھی میں نے خود کو گھر چھپر میں الٹا لٹکا دیکھ لیا ...

    مزید پڑھیے

    آویزش

    آج پھر اس سے ملاقات ہوئی باغ کے مغربی گوشے میں جھکے نیم کے چھتنار تلے ایک بد رنگ سی چادر پہ وہ بیٹھا تھا مجھے دیکھ کے سرشار ہوا بھائی کیسے ہو! نظر تم کبھی آتے ہی نہیں آؤ کچھ دیر مرے پاس تو بیٹھو دیکھو کیسا چپ چاپ ہے یہ باغ کا گوشہ جیسے کسی مواج سمندر میں جزیرہ کوئی دور وہ سرمئی بادل ...

    مزید پڑھیے

    بانجھ

    چھتوں منڈیروں اور پیڑوں پر ڈھلتی دھوپ کے اجلے کپڑے سوکھ رہے تھے بادل سرخ سی جھالر والے بانکے بادل ہنستے چہکتے پھولوں کا اک گلدستہ تھے ہر شے کندن روپ میں ڈھل کر دمک رہی تھی گالوں پر سونے کی ڈلگ اور آنکھوں میں اک تیز چمک تھی سارا منظر کیف کے اک لمحے میں بے بس لذت کی بانہوں میں جکڑا ...

    مزید پڑھیے

    دیوار گریہ

    عجب جادو بھری آنکھیں تھیں اس کی وہ جب پلکیں اٹھا کر اک نظر تکتی تو آنکھوں کی سیہ جھیلوں میں جیسے مچھلیوں کو آگ لگ جاتی ہزاروں سرخ ڈورے تلملا کر جست بھرتے آب غم کی قید سے باہر نکلنے کے لیے سو سو جتن کرتے مگر مجبور تھے چاروں طرف آنسو کے گنبد تھے نمی کے بلبلے تھے اور اک دیوار گریہ جو ...

    مزید پڑھیے

    کہانی

    عجب دن تھے وہ جھاڑیاں آگ کے جھنڈ کائی زدہ تال جن کے کنارے ہزاروں برس سے کھڑے جنڈ اور ون کے ڈھانچے پھلائی کے پھرواں کے جنگل جو دھرتی پہ بچھ سے گئے تھے اداسی ہوا بن کے پھرتی تھی اور سنت سادھو پرانے درختوں کے نیچے بچھی گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے تھے خود اپنے ہی اندر کے تاریک ...

    مزید پڑھیے

    اشومیدھ یگیہ

    گوری چٹی یال گھنی سی دودھ ایسی پوشاک بدن کی لانبے نازک ماتھے پر مہندی کا گھاؤ اڑتی گرتی خاک سموں کی مٹھی بھر کر منہ پر مل کر دل کی پیاس بجھاؤ صدیوں کے دکھ جھیلتے جاؤ رہے سفر میں ہرے مہکتے کھیتوں میں خوش باش پھرے اپنے پیچھے آتی قوت کے نشے میں کھویا رستے کے ہر بھاری پتھر کو ٹھوکر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5