Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی نظم

    ساری عمر گنوا دی ہم نے

    ساری عمر گنوا دی ہم نے پر اتنی سی بات بھی ہم نہ جان سکے کھڑکی کا پٹ کھلتے ہی جو لش لش کرتا ایک چمکتا منظر ہم کو دکھتا ہے کیا وہ منظر کھڑکی کی چوکھٹ سے باہر سبز پہاڑی کے قدموں میں اک شفاف ندی سے چمٹے پتھر پر چپ چاپ کھڑے اک پیکر کا گم صم منظر ہے جس کو کھڑکی کے کھلنے نہ کھلنے سے کچھ غرض ...

    مزید پڑھیے

    دیواریں

    صدیوں گنگ رہیں دیواریں اور پھر اک شب جانے کیسے دیواروں پر لفظوں کے انگارے چمکے انگاروں نے مل جل کر شعلے بھڑکائے سارے شہر میں آگ لگی کاغذ کے ملبوس جلے کالے ننگے جسموں سے بازار بھرے آوازوں کے جھکڑ آئے بادل چیخا آنگن کے بے داغ بدن پر جلی ہوئی ہڈیوں کے اولے پتھر بن کر برس پڑے اگلے دن ...

    مزید پڑھیے

    آنسو کی چلمن کے پیچھے

    ہنسی رکی تو پھر سے ماؤں پنجوں کے بل چلتی چلتی بازو کے ریشم پہ پھسلتی گردن کی گھاٹی سے ہو کر کان کی دیواروں پر چڑھتی اندر کے دالان میں کودی اور بدن اک ساغر سا بیمار بدن سارے کا سارا ہنسی کی چڑھتی ندی کی آفات بھری لذت کے اندر جھٹکے کھاتا چیخ اٹھا بس ابو روکو اس ماؤں کو ابو آگے مت ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کہتی رہی آؤ

    ہوا کہتی رہی آؤ چلو اس شاخ کو چھو لیں ادھر اس پیڑ کے پتوں میں چھپ کر تالیاں پیٹیں گریں اٹھیں لڑھک کر نہر میں اتریں نہائیں مخملیں سبزے یہ ننگے پاؤں چل کر دور تک جائیں ہوا کہتی رہی آؤ مگر میں خشک چھاگل اپنے دانتوں میں دبائے پیاس کی برہم سپہ سے لڑ رہا تھا میں کہاں جاتا مجھے سورج کے ...

    مزید پڑھیے

    حادثہ

    بے آواز تھے آنسو اس کے چھوٹے چھوٹے پیر تھے اس کے تن جیسے روئی کا گالا رنگ تھا کالا ندی کنارے تک پیروں کے سارے نشان سلامت تھے پار ندی کے کچھ بھی نہیں تھا پار ندی کے کچھ بھی نہیں ہے ساری راہیں ندیا کے اندر جاتی ہیں اور پھر وہیں کی ہو جاتی ہیں چھوٹے چھوٹے پیر برہنہ ریت کے اوپر پھول ...

    مزید پڑھیے

    سمندر اگر میرے اندر آ گرے

    سمندر اگر میرے اندر آ گرے تو پایاب لہروں میں ڈھل کے سلگنے لگے پیاس کے بے نشاں دشت میں وہیل مچھلی کی صورت تڑپنے لگے ہارپونوں سے نیزوں سے چھلنی بدن پر دہکتی ہوئی ریت کے تیز چر کے سہے اور پھر ریت پر جھاگ کے کچھ نشاں چھوڑ کر تا ابد سر بریدہ سے ساحل کے سائے میں ہونے نہ ہونے کی میٹھی ...

    مزید پڑھیے

    چنا ہم نے پہاڑی راستہ

    چنا ہم نے پہاڑی راستہ اور سمت کا بھاری سلاسل توڑ کر سمتوں کی نیرنگی سے ہم واقف ہوئے ابھری چٹانوں سے لڑھکنے گھاٹیوں سے کروٹیں لینے کی اک بگڑی روش ہم نے بھی اپنائی کھڈوں کی تہ میں بہتے پانیوں سے ہم نے چلنے کا چلن سیکھا درختوں اور پھولوں سے قطاریں توڑنے کی اور ہوا سے منہ اٹھا کر ...

    مزید پڑھیے

    اک تنہا بے برگ شجر

    کون مجھے دکھ دے سکتا ہے دکھ تو میرے اندر کی کشت ویراں کا اک تنا بے برگ شجر ہے رت کی نازک لانبی پوریں کرنیں خوشبو چاپ ہوائیں جسموں پر جب رینگنے پھرنے لگتی ہیں میرے اندر دکھ کا سویا پیڑ بھی جاگ اٹھتا ہے تنگ مساموں کے غرفوں سے لمبی نازک شاخیں پھن پھیلا کر تن کی اندھی شریانوں میں قدم ...

    مزید پڑھیے

    سفر

    تھکا ہارا بے جان بادل کا ٹکڑا درختوں چٹانوں سے دامن بچاتا پہاڑی کے کوہان سے نیچے اترا بہت تھک چکا تھا ہزاروں برس کی مسافت ہزاروں برس تک بس اک دھن مسلط بڑھے آگے بڑھ کر پہاڑوں درختوں نکیلی چٹانوں ہوا کی نہتی سسکتی ہوئی کرب میں ڈوبی چیخوں کو مٹھی میں لے کر مسل کر بڑی سادگی سے ہنسے ...

    مزید پڑھیے

    ترغیب

    کبھی تم جو آؤ تو میں صبح کے چھٹپٹے میں تمہیں سب سے اونچی عمارت کی چھت سے دکھاؤں درختوں کے اک سبز کمبل میں لپٹا ہوا شہر سارا کلس اور محراب کے درمیاں اڑنے والے مقدس کبوتر بہت دور چاندی کے اک تار ایسی ندی اس سے آگے جری کوہساروں کا اک سرمئی سلسلہ کبھی تم جو آؤ تو میں ایک تپتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5