Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی نظم

    ہوا کہتی رہی آؤ

    ہوا کہتی رہی آؤ چلو اس کھیت کو چھو لیں ادھر اس پیڑ کے پتوں میں چھپ کر تالیاں پیٹیں گریں اٹھیں لڑھک کر نہر میں اتریں نہائیں مخملیں سبزے پہ ننگے پاؤں چل کر دور تک جائیں ہوا کہتی رہی آؤ مگر میں خشک چھاگل اپنے دانتوں میں دبائے پیاس کی برہم سپہ سے لڑ رہا تھا میں کہاں جاتا مجھے سورج کے ...

    مزید پڑھیے

    سکتہ

    اگر وہ مرحلہ آئے ہوا جب سانس لینا بھول جائے مسافر چلتے چلتے رک پڑے سوچے مجھے اب کون سی منزل کو جانا ہے پرندہ آسماں پر دائرہ در دائرہ اڑتا سفیدی کے مہا گرداب کے اندر اتر جائے مندی آنکھوں میں جب خوابوں کا اک موج ساگر ریت کی شکنوں میں ڈھل کر ریت ہو جائے اگر وہ مرحلہ آئے تو تم اپنی نظر ...

    مزید پڑھیے

    تجھے بھی یاد تو ہوگا

    کبھی ہوا اک جھونکا ہے جو دیواروں کو پھاند کے اکثر ہلکی سی ایک چاپ میں ڈھل کر صحن میں پھرتا رہتا ہے کبھی ہوا اک سرگوشی ہے جو کھڑکی سے لگ کر پہروں خود سے باتیں کرتی ہے کبھی ہوا وہ موج صبا ہے جس کے پہلے ہی بوسے پر ننھی منی کلیوں کی نندیا سے بوجھل سوجی آنکھیں کھل جاتی ہیں کبھی ...

    مزید پڑھیے

    میں اور تو

    اک البیلی پگڈنڈی ہے افتاں خیزاں گرتی پڑتی ندی کنارے اتری ہے ندی کنارے باہیں کھولے اک البیلا پیڑ کھڑا ہے پیڑ نے رستہ روک لیا ہے پگڈنڈی حیران کھڑی ہے جسم چرائے آنکھ جھکائے دائیں بائیں دیکھ رہی ہے جانے کب سے باہیں کھولے رستہ روکے پیڑ کھڑا ہے جانے کب سے جسم چرائے آنکھ جھکائے ...

    مزید پڑھیے

    دکھ میلے آکاش کا

    دکھ کے روپ ہزاروں ہیں ہوا بھی دکھ اور آگ بھی دکھ ہے میں تیرا تو میرا دکھ ہے پر یہ میلے اور گہرے آکاش کا دکھ جو قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے اس دکھ کا کوئی انت نہیں ہے جب آکاش کا دل دکھتا ہے بچے بوڑھے شجر حجر چڑیاں اور کیڑے سب کے اندر دکھ اگتا ہے پھر یہ دکھ آنکھوں کے رستے گالوں پر بہنے لگتا ...

    مزید پڑھیے

    عجیب ہے یہ سلسلہ

    عجیب ہے یہ سلسلہ یہ سلسلہ عجیب ہے ہوا چلے تو کھیتیوں میں دھوم چہچہوں کی ہے ہوا رکے تو مردنی ہے مردنی کی راکھ کا نزول ہے کہاں ہے تو کہاں ہے تو کہاں نہیں ہے تو بتا ابھی تھا تیرے گرتے اڑتے آنچلوں کا سلسلہ اور اب افق پر دور تک گئے دنوں کی دھول ہے گئے دنوں کی دھول کا یہ سلسلہ فضول ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    نشر گاہ

    فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا پر نہ سوچا کہاں سے چلا تھا کہاں آ کے ٹھہرا میں کس منزل بے نشاں کی طرف اب رواں ہوں مجھے خشک بد رنگ چمڑے پہ لکھے سوالوں سے رغبت نہیں تھی میں منطق کی ورزش سے خود کو تھکانا نہیں چاہتا تھا فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا اور دیکھا فلک کی سیہ گہری سوکھی ...

    مزید پڑھیے

    اس کے دشمن

    سحر ہوئی تو کسی نے اٹھ کر لہو میں تر ایک سرخ بوٹی بڑی کراہت سے آسماں کے فراخ آنگن میں پھینک دی اور طویل متلی کی جان لیوا سی کیفیت سے نجات پائی مگر فلک کے فراخ آنگن میں بادلوں کے سفید سگ اس کے منتظر تھے جھپٹ پڑے اس لہو میں تر دل کے لوتھڑے پر جھپٹ پڑے ایک دوسرے پر زمین کے لوگوں نے دیر ...

    مزید پڑھیے

    ہتک

    آنکھ ہنسی پھر کالی کلوٹی رات ہنسی پھر رات کا پنچھی پھڑ پھڑ کرتا میرے اوپر منڈلایا اور ننگے مست پہاڑ نے یک دم آنکھ جھکا کر بھاری پتھر لڑھکایا وہ پتھر دوسرے پتھر سے ٹکرا کر ٹوٹا لڑھک گیا پھر اس کے سخت نکیلے ٹکڑے لاکھوں لڑھکتے ٹکڑوں کا سیلاب بنے اور ننگا مست پہاڑ ہنسا گرداب ...

    مزید پڑھیے

    رات بھر اک صدا

    تیز تلوار کی دھار ایسی صدا قطرہ قطرہ مرے خون میں پگھلے سے کے مانند گرتی رہی میری رگ رگ میں گھل کر بکھرتی رہی اور پھرے ہوئے تند ذروں کی صورت مرے جسم میں دوڑتی جھنجھناتی پھری صبح ہونے کو ہے کوئی دم میں یہ زخموں بھری رات کی گرم چادر اجالے کے صابن میں دھل کر نکھر آئے گی ہر طرف نرم و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5