Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی نظم

    اب دن کی باتیں کرتے ہیں

    لو رات کی بات تمام ہوئی اب دن کی باتیں کرتے ہیں سب خواب تماشے دھول ہوئے اور جگنو تارے دیپ سبھی پرکاش کے پھیلے ساگر میں چمکاٹ دکھانا بھول گئے اک چاند کہ شب بھر ساتھ رہا وہ چاند بھی گر کر ٹوٹ گیا لو رات کی بات تمام ہوئی اب دن کی باتیں کرتے ہیں پھولوں کے سوجے چہروں پر شبنم کی چڑیاں ...

    مزید پڑھیے

    کتنی بار بلایا اس کو

    کتنی بار بلایا اس کو لیکن اس کے لب لرزے نہ آنکھوں میں پہچان کا کوندا لہرایا بس اک پل خالی نظریں اس نے مجھ پر ڈالیں اور پلکوں کے پیچھے جا کر چپ کے بھاری حجرے میں آرام کیا پر میرے ہونٹوں سے بہتے لفظوں کا اک دھول اڑاتا شور چھتوں پھر چھتناروں تک پھیل گیا پھر اور بھی اوپر تاروں کے ...

    مزید پڑھیے

    ذات کے روگ میں

    تب وہ بے ساختہ رو پڑے سینہ کوبی کرے جانے والے کا ماتم کرے بین کرتے پھرے آخری پات کے سوگ میں تلملاتی رہے ذات کے روگ میں پھر وہ رت آئے جب چکنی کائی زدہ سی چٹانوں پہ دیکھوں میں خود کو میں آنکھوں کے پانی کو روکوں مگر پانی کیسے رکے تب میں چیخوں بلاؤں اسے گہرے نیلے سمندر کی تہہ میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    امید

    زندگی تیرہ غار کے مانند اور میں روشنی کا شیدائی کانپتی اونگھتی سی دیواریں پتھروں پر سجی ہوئی کائی گیلی گیلی سیہ چٹانوں پر گرتی بوندوں کی نغمہ پیرائی تیرگی اور ہزار آوازیں دل رہین فریب تنہائی ہر قدم لغزشوں کا افسانہ ہر نفس وقف ناشکیبائی دور لیکن وہ نور کا نقطہ پیکر سیم گوں کی ...

    مزید پڑھیے

    مڈ وائف

    آنے والے ننھے منے سب خوابوں سے کہتی ہے وہ آ جاؤ اور آ کر دیکھو کتنے لوگ تمہاری خاطر جانے کب سے جاگ رہے ہیں پر جب آنے والے اس کے نرم ملائم ریشم ایسے ہاتھوں کی پوروں سے چمٹے آ جاتے ہیں وہ تن کر کہتی ہے دیکھو میں نے تم کو جنم دیا ہے ماں کہہ کر تم مجھے پکارو اور وہ اس کے ریشم ایسے ...

    مزید پڑھیے

    پیپل

    اک پیپل کے نیچے میں نے اپنی کھاٹ بچھائی لیٹ گیا میں کھاٹ پہ لیکن نیند نہ مجھ کو آئی آہیں بھرتے کروٹیں لیتے ساری عمر گنوائی پیپل کے پتوں کو گنتے کرتے ان پر غور پیپل کی شاخوں کو تکتے بیت گیا اک دور پیپل کی ہر چیز پرانی البیلا ہر طور چلے ہوا تو ڈالی ڈالی لچک لچک بل کھائے رکے ہوا تو ...

    مزید پڑھیے

    آمد

    کبھی خشک موسم میں پروا جو چلتی تو بنجر پہاڑوں گھنے گرد آلود شہروں سے کترا کے ہم تک پہنچتی ہمیں تند یادوں کے گرداب میں ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے دیکھ کر ہم سے کہتی میں ان سب کے جسموں سے مس ہو کے آئی ہوں ان کے پسینے کی خوشبو کو اپنے لبادے میں بھر کر ہتھیلی پہ رکھ کر میں لائی ہوں کبھی سرخ ...

    مزید پڑھیے

    بھوت

    مرے ہوؤں سے ڈرو نہیں یہ کہا تھا تم نے جو مر گئے وہ زمیں کے اندر اتر گئے ان مرے ہوؤں کی بھٹکتی پھرتی خوشی غمی کے عذاب سہتی نحیف روحوں سے ڈرنا کیسا کہا تھا تم نے نہیں میں ڈرتا نہیں ہوں ان سے بھٹکتی پھرتی زمیں کا چکر لگاتی روحوں سے خوف کیسا جو خود پتنگے کے کرب میں مبتلا ہوں ان سے کسی ...

    مزید پڑھیے

    کوہ ندا

    صبح سویرے ایک لرزتی کانپتی سی آواز آتی ہے سونے والو! تم مالک کو بھول گئے ہو تم مالک کو بھول گئے ہو پھر چمکیلی مل کا سائرن ایک غلیظ ڈرانے والی تند صدا کے روپ میں ڈھل کر دیواروں سے ٹکراتا ہے اور گلیوں کے تنگ اندھیرے باڑے میں کہرام مچا کر بھیڑوں کے گلے کو ہانک کے لے جاتا ہے پھر انجن ...

    مزید پڑھیے

    کراں تا کراں

    جو مزہ چاہت میں ہے حاصل میں اس کو ڈھونڈھنا بے کار ہے ہو کہاں تم کس جہاں میں کیوں مجھے معلوم ہو؟ دھند میں ہو خواب میں یا آسماں کی قوس میں یا موج کی گردش میں ہو تم ہاتھ کی ریکھا کے اندر ہو کہیں یا دور سناٹوں کے ٹکراؤ سے پیدا ان سنی آواز کی ریزش میں ہو چاہے کہیں بھی ہو مری چاہت کے پھیلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5