Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی نظم

    کہاں سے تم آئے ہو بھائی

    سفیدے کے سنبل کے اور پوپلر کے چھریرے شجر مری جوہ میں آئے تھے جب مری سبز دھرتی کا اک بھی پرندہ انہیں دیکھنے ان کی شاخوں میں آرام کرنے کو تیار ہرگز نہیں تھا کبھی کوئی پھولے پروں والی اک پھول سی فاختہ ان کی شاخوں کی جانب امنڈتی تو بو سے پریشان ہو کر فلک کی طرف تیر بن کر کچھ اس طور ...

    مزید پڑھیے

    اک بے انت وجود

    اک بے انت وجود ہے اس کا گہرے کالے مخمل ایسا جس پر لاکھوں اربوں آنکھیں نقش ہوئی ہیں ان آنکھوں میں میں اک ایسی آنکھ ہوں جس نے ایک ہی پل میں سارا منظر اور منظر کے پیچھے کا سب خالی منظر دیکھ لیا ہے تکنا اس نے سیکھ لیا ہے پر وہ گہرا کالا مخمل اس کو اس سے غرض نہیں ہے کون سی آنکھ کو بینائی ...

    مزید پڑھیے

    بے کراں وسعتوں میں تنہا

    سفر میں ہوں اور رکا کھڑا ہوں میں چاروں سمتوں میں چل رہا ہوں مگر کہاں ہوں وہیں جہاں سرخ روشنائی کا ایک قطرہ کسی قلم کی کثیف نب سے ٹپک پڑا ہے میں خود بھی شاید کسی قلم سے گرا ہوا ایک سرخ قطرہ ہوں زندگی کی سجل جبیں پر چمکتی بندیا سی بن گیا ہوں مگر میں بندیا نہیں ہوں شاید کہ وہ تو تقدیس ...

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ کر جاتا ہے

    لمحوں کے ریزوں کی ہلکی بارش میں سب کتنے خوش خوش پھرتے ہیں ان خوش خوش پھرنے والوں کو یہ کون بتائے کیسے نظر نہ آنے والے ریزے لمحوں کے جب جڑ جاتے ہیں ایک پہاڑ سا بھاری لمحہ بن جاتے ہیں جو چپکے سے اپنی لمبی اور چمکیلی دم لہراتا آ جاتا ہے سر پر دھم سے آ گرتا ہے ریزہ ریزہ کر جاتا ہے!!

    مزید پڑھیے

    المیہ

    کہاں اب کہاں وہ ہوا جو سنہری سی الھڑ سی پگڈنڈیوں پر مرے پیچھے پیچھے چلی میں نے جس سے کہا یوں نہ آ دیکھ لے گا کوئی وہ ہنسی زہر میں ڈوبے ہونٹوں نے مجھ سے کہا تو یوں ہی ڈر گیا میں ہوا دور پربت پہ میرا نگر اونچے آکاش پر میرا گھر زرد پگڈنڈیوں سے مجھے واسطے اور میں بڑھتا گیا اونچا اٹھتا ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی

    اون اتری بھیڑ کے مانند پیڑ منہ چڑھاتی دل دکھاتی چوٹیاں دور نیچے پتھروں کی سیج پر سر پٹختی چیختی ندی رواں آسماں پر مردہ بادل خیمہ زن قہقہوں سے رعد کے نا آشنا مہر جیسے کوئی مجبور ازل ایک میلے جال میں الجھا ہوا ملگجی سی روشنی میں ایک پیڑ کانپتی انگلی سے مجھ پر خندہ زن آسماں پر ...

    مزید پڑھیے

    تم جو آتے ہو

    تم جو آتے ہو تو کچھ بھی نہیں رہتا موجود تم چلے جاتے ہو اور بولنے لگتے ہیں تمام ادھ کھلے پھول سماعت پہ جمی چاپ ہوا بند مکان گفتگو کرنے کے آسن میں رکے سب اجسام مردہ لمحات کا اک ڈھیر پہاڑ ابر کی قاش اٹھی موج کا ساکت اندام برف لب پلکوں پہ ٹانکے ہوئے موتی آنسو اور سلے کانوں میں آواز کی ...

    مزید پڑھیے

    سفر کا دوسرا مرحلہ

    چلی کب ہوا کب مٹا نقش پا کب گری ریت کی وہ ردا جس میں چھپتے ہوئے تو نے مجھ سے کہا آگے بڑھ آگے بڑھتا ہی جا مڑ کے تکنے کا اب فائدہ کوئی چہرہ کوئی چاپ ماضی کی کوئی صدا کچھ نہیں اب اے گلے کے تنہا محافظ ترا اب محافظ خدا میرے ہونٹوں پہ کف میرے رعشہ زدہ بازوؤں سے لٹکتی ہوئی گوشت کی ...

    مزید پڑھیے

    تھکن

    گھٹنوں پہ رکھ کر ہاتھ اٹھی تھکی آواز میں بولی بہت لمبا سفر ہے عمر کے منہ زور دریا کا اکھڑتے پتھروں چکنی پھسلتی ساعتوں کا یہ سفر مشکل بہت ہے تھکن بوجھل منوں بوجھل بدن اپنا اٹھا کر چل پڑی چلتی رہی پھر ایک دن بھاری پپوٹوں کو اٹھا کر اس نے دیکھا راستے کے بیچ ایک برگد پرانا سمادھی ...

    مزید پڑھیے

    دعا

    بیاض شب و روز پر دستخط تیرے قدموں کے ہوں بدن کے پسینے سے قرنوں کے اوراق مہکیں صبا تیرے رستے سے کنکر ہٹائے فلک پر گرجتا ہوا گرم بادل ترے تن کی قوس قزح کا لرزتا دمکتا ہوا کوئی منظر دکھائے تجھے ہر قدم پر ملیں منزلیں ہوا کے ایک باریک سے تیز چابک کی صورت تری بند مٹھی میں دبکی رہے سدا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5