Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی غزل

    دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا

    دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا سارا لہو بدن کا رواں مشت پر میں تھا جاتے کہاں کہ رات کی بانہیں تھیں مشتعل چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا حد افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر آنسو کا اک پہاڑ سا حائل نظر میں تھا لو وہ بھی خشک ریت کے ٹیلے میں ڈھل گیا کل تک جو ایک کوہ گراں ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ تو کبھی کا جل بجھا ہے

    ستارہ تو کبھی کا جل بجھا ہے یہ آنسو سا تری پلکوں پہ کیا ہے درختوں کو تو چپ ہونا تھا اک دن پرندوں کو مگر کیا ہو گیا ہے دھنک دیوار کے رستے میں حائل وگرنہ جست بھر کا فاصلہ ہے اسے بند آنکھ سے میں دیکھ تو لوں مگر پھر عمر بھر کا فاصلہ ہے چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم یہ رستہ دیر سے سونا ...

    مزید پڑھیے

    ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو

    ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو جو ہو سکے یہ تماشا نہ تو دکھا مجھ کو کبھی تو کوئی فلک سے اتر کے پاس آئے کبھی تو ڈسنے سے باز آئے فاصلہ مجھ کو تلاش کرتے ہو پھولوں میں کیسے پاگل ہو اڑا کے لے بھی گئی صبح کی ہوا مجھ کو کسے خبر کہ صدا کس طرف سے آئے گی کہاں سے آ کے اٹھائے گا قافلہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے

    ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے پھر یوں ہوا کہ لوگ ہمیں تولنے لگے آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے عمر رواں کو پار کیا تم نے اور ہم رسی کے پل پہ پاؤں رکھا ڈولنے لگے دستک ہوا ہی دے کہ یہ بندش تمام ہو سونے گھروں میں کوئی تو رس گھولنے لگے میں بن گیا ...

    مزید پڑھیے

    منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی

    منظر تھا راکھ اور طبیعت اداس تھی ہر چند تیری یاد مرے آس پاس تھی میلوں تھی اک جھلستی ہوئی دوپہر کی قاش سینے میں بند سینکڑوں صدیوں کی پیاس تھی اٹھے نہا کے شعلوں میں اپنے تو یہ کھلا سارے جہاں میں پھیلی ہوئی تیری باس تھی کیسے کہوں کہ میں نے کہاں کا سفر کیا آکاش بے چراغ زمیں بے لباس ...

    مزید پڑھیے

    اس گریۂ پیہم کی اذیت سے بچا دے

    اس گریۂ پیہم کی اذیت سے بچا دے آواز جرس اب کے برس مجھ کو ہنسا دے یا ابر کرم بن کے برس خشک زمیں پر یا پیاس کے صحرا میں مجھے جینا سکھا دے میں بھی تری خوشبو ہوں مری سمت بھی تو دیکھ مہلت تجھے گر سلسلۂ موج صبا دے سورج نے مجھے برف کیا ہے تو تجھے کیا کیا تجھ کو اگر برف مجھے آگ لگا ...

    مزید پڑھیے

    بے صدا دم بخود فضا سے ڈر

    بے صدا دم بخود فضا سے ڈر خشک پتہ ہے تو ہوا سے ڈر کورے کاغذ کی سادگی پہ نہ جا گنگ لفظوں کی اس ردا سے ڈر آسماں سے نہ اس قدر گھبرا تو زمیں کی سزا جزا سے ڈر جانے کس کھونٹ تجھ کو لے جائیں شاہزادے نقوش پا سے ڈر ترک دست طلب پہ مت اترا اپنے دل میں چھپے گدا سے ڈر عرش تک بھی اڑان ہے اپنی ہم ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

    دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چیختی ہیں کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا عارض شام کی سرخی نے کیا فاش اسے پردۂ ابر میں تھا آگ لگانے والا سفر شب کا ...

    مزید پڑھیے

    سفید پھول ملے شاخ سیم بر کے مجھے

    سفید پھول ملے شاخ سیم بر کے مجھے خزاں کو کچھ نہ ملا بے لباس کر کے مجھے تھی دشت خواب میں اک تیری جستجو مجھ کو کہ تجھ سے شکوے ہزاروں تھے عمر بھر کے مجھے میں اپنے نام کی تختی میں تھا شریر ہوا گلی میں پھینک گئی بے نشان کر کے مجھے اب اس نگر میں تو کچھ بھی نہیں ہے رک جاؤ صدائیں دیتے ...

    مزید پڑھیے

    دھار سی تازہ لہو کی شبنم افشانی میں ہے

    دھار سی تازہ لہو کی شبنم افشانی میں ہے صبح اک بھیگی ہوئی پلکوں کی تابانی میں ہے آنکھ ہے لبریز شاید رو پڑے گا تو ابھی جیسے ذلت کا مداوا آنکھ کے پانی میں ہے میں نہیں ہارا تو میرے حوصلے کی داد دے اک نیا عزم سفر اس خستہ سامانی میں ہے بے ثمر بے رنگ موسم برف کی صورت سفید اور دل امڈے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4