Wazir Agha

وزیر آغا

پاکستان کے ممتاز ترین نقادوں میں معروف

One of most prominent modern critics

وزیر آغا کی غزل

    وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے

    وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے آنا ہوا تو اب وہ سر عام آئیں گے سوچا نہ تھا کہ ابر سیہ پوش سے کبھی کوندے تیرے بدن کے مرے نام آئیں گے اس نخل نا مراد سے جو پات جھڑ گئے اندھی خنک ہواؤں کے اب کام آئیں گے آنسو ستارے اوس کے دانے سفید پھول سب میرے غم گسار سر شام آئیں گے رکھ تو انہیں ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں خبر بھی نہ ملی اور ہم شکستہ حال

    تمہیں خبر بھی نہ ملی اور ہم شکستہ حال تمہارے قدموں کی آندھی میں ہو گئے پامال ترے بدن کی مہک نے سلا دیا تھا مگر ہوا کا اندھا مسافر چلا انوکھی چال وہ ایک نور کا سیلاب تھا کہ اسی کا سفر وہ ایک نقطۂ موہوم تھا کہ یہ بد حال عجیب رنگ میں وارد ہوئی خزاں اب کے دمکتے ہونٹ سلگتی نظر دہکتے ...

    مزید پڑھیے

    چلو مانا ہمیں بے کارواں ہیں

    چلو مانا ہمیں بے کارواں ہیں جو جزو کارواں تھے وہ کہاں ہیں نہ جانے کون پیچھے رہ گیا ہے مناظر الٹی جانب کو رواں ہیں زمیں کے تال سب سوکھے پڑے ہیں پرندے آسماں در آسماں ہیں سنا ہے تشنگی بھی اک دعا ہے لبوں پر شبد جس کے پر فشاں ہیں کھلے صحرا میں مت ڈھونڈو ہمیں تم سدا سے ہم تمہارے ...

    مزید پڑھیے

    نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے

    نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے بس اک آنسو کے دانے پر بسر اوقات کرتا ہے شجر کے تن میں گہرا زخم ہے کوئی وگرنہ یوں زمیں پر سبز پتوں کی کوئی برسات کرتا ہے وہ جب چاہے بجھا دیتا ہے شمعیں بھی ستارے بھی نگر سارا سپرد پنجۂ ظلمات کرتا ہے وہ اپنی بات سے صدچاک کرتا ہے مرا ...

    مزید پڑھیے

    بے زباں کلیوں کا دل میلا کیا

    بے زباں کلیوں کا دل میلا کیا اے ہوائے صبح تو نے کیا کیا کی عطا ہر گل کو اک رنگیں قبا بوئے گل کو شہر میں رسوا کیا کیا تجھے وہ صبح کاذب یاد ہے روشنی سے تو نے جب پردہ کیا بے خیالی میں ستارے چن لیے جگمگاتی رات کو اندھا کیا جاتے جاتے شام یک دم ہنس پڑی اک ستارہ دیر تک رویا کیا روٹھ کر ...

    مزید پڑھیے

    لازم کہاں کہ سارا جہاں خوش لباس ہو

    لازم کہاں کہ سارا جہاں خوش لباس ہو میلا بدن پہن کے نہ اتنا اداس ہو اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں اتنا نہ دور جا کے ہمہ وقت پاس ہو اک جوئے بے قرار ہو کیوں دلکشی تری کیوں اتنی تشنہ لب مری آنکھوں کی پیاس ہو پہنا دے چاندنی کو قبا اپنے جسم کی اس کا بدن بھی تیری طرح بے لباس ...

    مزید پڑھیے

    سحر نے آ کر مجھے سلایا تو میں نے جانا

    سحر نے آ کر مجھے سلایا تو میں نے جانا پھر ایک سپنا مجھے دکھایا تو میں نے جانا بجز ہوا اب رکے گا کوئی نہ پاس میرے اندھیری شب میں دیا بجھایا تو میں نے جانا گیا یہ کہہ کر کہ ایک شب کی ہے بات ساری مگر وہ جب لوٹ کر نہ آیا تو میں نے جانا میں ایک تنکا رکا کھڑا تھا ندی کنارے ندی نے بہنا ...

    مزید پڑھیے

    عمر کی اس ناؤ کا چلنا بھی کیا رکنا بھی کیا

    عمر کی اس ناؤ کا چلنا بھی کیا رکنا بھی کیا کرمک شب ہوں مرا جلنا بھی کیا بجھنا بھی کیا اک نظر اس چشم تر کا میری جانب دیکھنا آبشار نور کا پھر خاک پر گرنا بھی کیا زخم کا لگنا ہمیں درکار تھا سو اس کے بعد زخم کا رسنا بھی کیا اور زخم کا بھرنا بھی کیا تیرے گھر تک آ چکی ہے دور کے جنگل کی ...

    مزید پڑھیے

    آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے

    آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے خاک پر مہکا ہوا چھوٹا سا گھر میرے لیے لفظ کی چھاگل جو چہکے خاکداں آباد ہو وجد میں آنے لگیں سارے شجر میرے لیے دور تک اڑتے ہوئے جگنو تری آواز کے دور تک ریگ رواں پر اک نگر میرے لیے آشنا نظروں سے دیکھیں رات بھر تارے تجھے گھورتی آنکھوں کی یہ بستی ...

    مزید پڑھیے

    گل نے خوشبو کو تج دیا نہ رہا

    گل نے خوشبو کو تج دیا نہ رہا خود سے خود کو کیا جدا نہ رہا رات دیکھے سفر کے خواب بہت پو پھٹی جب تو حوصلہ نہ رہا قافلہ اس کے دم قدم سے تھا چل دیا وہ تو قافلہ نہ رہا ربط اس کا زماں سے کیا رہتا جب زمیں ہی سے سلسلہ نہ رہا ترک کر خامشی کا مسلک سن ہو گیا جو بھی بے صدا نہ رہا عمر بھر اس نے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4