Waseem Barelvi

وسیم بریلوی

مقبول عام شاعر

Popular poet having vast mass following.

وسیم بریلوی کی غزل

    میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے

    میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے شام آئی تو بچھڑے ہوئے ہم سفر آنسوؤں سے ان آنکھوں میں آتے رہے ننھے بچوں نے چھو بھی لیا چاند ...

    مزید پڑھیے

    محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے

    محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

    آتے آتے مرا نام سا رہ گیا اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے یہ دیا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے سائے کو اتنا سمجھانے دے

    اپنے سائے کو اتنا سمجھانے دے مجھ تک میرے حصے کی دھوپ آنے دے ایک نظر میں کئی زمانے دیکھے تو بوڑھی آنکھوں کی تصویر بنانے دے بابا دنیا جیت کے میں دکھلا دوں گا اپنی نظر سے دور تو مجھ کو جانے دے میں بھی تو اس باغ کا ایک پرندہ ہوں میری ہی آواز میں مجھ کو گانے دے پھر تو یہ اونچا ہی ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا

    سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا ہر آدمی کے مقدر میں گھر نہیں ہوتا کبھی لہو سے بھی تاریخ لکھنی پڑتی ہے ہر ایک معرکہ باتوں سے سر نہیں ہوتا میں اس کی آنکھ کا آنسو نہ بن سکا ورنہ مجھے بھی خاک میں ملنے کا ڈر نہیں ہوتا مجھے تلاش کروگے تو پھر نہ پاؤ گے میں اک صدا ہوں صداؤں کا گھر ...

    مزید پڑھیے

    کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا

    کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا ہر شخص مرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا پیاسے رہے جاتے ہیں زمانے کے سوالات کس کے لیے زندہ ہوں بتا بھی نہیں سکتا گھر ڈھونڈ رہے ہیں مرا راتوں کے پجاری میں ہوں کہ چراغوں کو ...

    مزید پڑھیے

    بیتے ہوئے دن خود کو جب دہراتے ہیں

    بیتے ہوئے دن خود کو جب دہراتے ہیں ایک سے جانے ہم کتنے ہو جاتے ہیں ہم بھی دل کی بات کہاں کہہ پاتے ہیں آپ بھی کچھ کہتے کہتے رہ جاتے ہیں خوشبو اپنے رستہ خود طے کرتی ہے پھول تو ڈالی کے ہو کر رہ جاتے ہیں روز نیا اک قصہ کہنے والے لوگ کہتے کہتے خود قصہ ہو جاتے ہیں کون بچائے گا پھر ...

    مزید پڑھیے

    اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

    اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے لاکھ تلواریں بڑھی آتی ہوں گردن کی طرف سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے قہقہہ آنکھ کا برتاؤ بدل دیتا ہے ہنسنے والے تجھے آنسو نظر ...

    مزید پڑھیے

    میں آسماں پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا

    میں آسماں پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا مگر یہ بات زمیں سے تو کہہ نہیں سکتا کسی کے چہرے کو کب تک نگاہ میں رکھوں سفر میں ایک ہی منظر تو رہ نہیں سکتا یہ آزمانے کی فرصت تجھے کبھی مل جائے میں آنکھوں آنکھوں میں کیا بات کہہ نہیں سکتا سہارا لینا ہی پڑتا ہے مجھ کو دریا کا میں ایک قطرہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا

    دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا پہنچا ہے بزرگوں کے بیانوں سے جو ہم تک کیا بات ہوئی کیوں وہ زمانہ نہیں آتا میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا اس چھوٹے زمانے کے بڑے کیسے بنوگے لوگوں کو جب آپس میں لڑانا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4