Wahshat Raza Ali Kalkatvi

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

بنگال کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

Prominent later – classical poet from Bengal

وحشتؔ رضا علی کلکتوی کی غزل

    آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو

    آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو پھاڑیں گے جیب گوشۂ زنداں ہی کیوں نہ ہو ہو شغل کوئی جی کے بہلنے کے واسطے راحت فزا ہے نالہ و فغاں ہی کیوں نہ ہو سودائے زلف یار سے باز آئیں گے نہ ہم مجموعۂ حواس پریشاں ہی کیوں نہ ہو احسان تیر یار ادا ہو سکے گا کیا جان اپنی نذر لذت پیکاں ہی کیوں ...

    مزید پڑھیے

    لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے

    لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے اے حسن حجاب آرا کس نے تجھے دیکھا ہے محفل سی سجائی ہے دیدار کی حسرت نے ہر چند ترا جلوہ محبوب تماشا ہے مٹتا ہے کبھی دل سے نقش اس کی محبت کا ناکام تمنا بھی مجبور تمنا ہے جذبات کی دنیا میں برپا ہے قیامت سی اس حال میں رو پوشی کیا آپ کو زیبا ہے ساقی تری ...

    مزید پڑھیے

    میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا

    میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا ہے تغافل شیوہ آخر کس ستم ایجاد کا ہائے وہ دل جو ہدف تھا ناوک بیداد کا درد سہتا ہے وہی اب غفلت صیاد کا نرگس مستانہ میں کیفیت جام شراب قامت رعنا پہ عالم مصرعۂ استاد کا مانع فریاد ہے کچھ طبع کی افسردگی کچھ سکوت آموز ہے پاس ادب صیاد کا اس قدر دل ...

    مزید پڑھیے

    شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا

    شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا دل کو محو روئے جاناں کر دیا تو نے اے جمعیت دل کی ہوس اور بھی مجھ کو پریشاں کر دیا واہ رے زخم محبت کی خلش جس کو دل نے راحت جاں کر دیا خود نمائی خود فروشی ہو گئی آپ نے اپنے کو ارزاں کر دیا ان کے دامن تک نہ پہنچا دست شوق اس کو مصروف گریباں کر دیا بزم میں ...

    مزید پڑھیے

    تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں

    تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں اس نرگس بیمار کے بیمار بہت ہیں عالم پہ ہے چھایا ہوا اک یاس کا عالم یعنی کہ تمنا کے گرفتار بہت ہیں اک وصل کی تدبیر ہے اک ہجر میں جینا جو کام کہ کرنے ہیں وہ دشوار بہت ہیں وہ تیرا خریدار قدیم آج کہاں ہے یہ سچ ہے کہ اب تیرے خریدار بہت ہیں محنت ہو مصیبت ...

    مزید پڑھیے

    کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں

    کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں ہزارہا نقش آرزو کے بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں وفا مری معتبر ہے کتنی جفا وہ کر سکتے ہیں کہاں تک جو وہ مجھے آزما رہے ہیں تو میں انہیں آزما رہا ہوں کسی کی محفل کا نغمۂ نے محرک نالہ و فغاں ہے فسانۂ عیش سن رہا ہوں فسانۂ غم سنا رہا ہوں زمانہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی صورت سے اس محفل میں جا کر

    کسی صورت سے اس محفل میں جا کر مقدر ہم بھی دیکھیں آزما کر تغافل کیش میں نے ہی بنایا اسے حال دل شیدا سنا کر اٹھا لینے سے تو دل کے رہا میں تو اب ظالم وفا کر یا جفا کر ترے گلشن میں پہنچے کاش اک دن نسیم آشنائی راہ پا کر خوشی ان کو مبارک ہو الٰہی وہ خوش ہیں خاک میں مجھ کو ملا کر دہن ہے ...

    مزید پڑھیے

    پیمان وفائے یار ہیں ہم

    پیمان وفائے یار ہیں ہم یعنی ناپائیدار ہیں ہم خاک سر رہ گزار ہیں ہم پامال جفائے یار ہیں ہم نومیدی و یاس چار سو ہے اف کس کے امیدوار ہیں ہم کس دشمن جاں کی آرزو ہے جو موت کے خواست گار ہیں ہم تو ہم سے ہے بدگماں صد افسوس تیرے ہی تو جاں نثار ہیں ہم وحشتؔ خاموش جل رہے ہیں گویا شمع مزار ...

    مزید پڑھیے

    نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے

    نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے خود ہی اثر نالہ سے دل تھام لیا ہے آزادئ اندوہ فزا سے ہے رہائی اب میں نے کچھ آرام تہ دام لیا ہے اٹھتی تھیں امنگیں انہیں بڑھنے نہ دیا پھر میں نے دل ناکام سے اک کام لیا ہے جز مشغلۂ نالہ و فریاد نہ تھا کچھ جو کام کہ دل سے سحر و شام لیا ہے خود پوچھ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے

    آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے درد کا کچھ تو ہو احساس دل انساں میں سخت ناشاد ہے دائم جو یہاں شاد رہے اے ترے دام محبت کے دل و جاں صدقے شکر ہے قید علائق سے ہم آزاد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4