آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو پھاڑیں گے جیب گوشۂ زنداں ہی کیوں نہ ہو ہو شغل کوئی جی کے بہلنے کے واسطے راحت فزا ہے نالہ و فغاں ہی کیوں نہ ہو سودائے زلف یار سے باز آئیں گے نہ ہم مجموعۂ حواس پریشاں ہی کیوں نہ ہو احسان تیر یار ادا ہو سکے گا کیا جان اپنی نذر لذت پیکاں ہی کیوں ...