Tilok Chand Mahroom

تلوک چند محروم

مشہور اردو اسکالر اور شاعر جگن ناتھ آزاد کے والد

Father of famous Urdu scholar and poet Jagannath Azad.

تلوک چند محروم کی غزل

    دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی

    دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی فکر معاش و عشق بتاں ...

    مزید پڑھیے

    ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں

    ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں ان کی نظر میں چاند ستارے اداس ہیں آنکھیں وہ پھر گئیں کہ زمانہ الٹ گیا جیتے تھے جو نظر کے سہارے اداس ہیں کیا ہیر اب کہیں ہے نہ رانجھے کا جانشیں کیوں اے چناب تیرے کنارے اداس ہیں بہتر ہے ہم بھی چشم جہاں بیں کو موند لیں دنیا کے اب تمام نظارے اداس ...

    مزید پڑھیے

    غلط کی ہجر میں حاصل مجھے قرار نہیں

    غلط کی ہجر میں حاصل مجھے قرار نہیں اسیر یاس ہوں پابند انتظار نہیں ہے ان کے عہد وفا سے مناسبت دل کو اسے قیام نہیں ہے اسے قرار نہیں یہاں تو ضبط جنوں پر نہ کر مجھے مجبور فضائے دشت ہے اے عقل بزم یار نہیں قفس میں ڈالے گا کس کس کو آخر اے صیاد اسیر دام وفا سو نہیں ہزار نہیں جہاں میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ دل کہاں ہے اہل نظر دل کہیں جسے

    وہ دل کہاں ہے اہل نظر دل کہیں جسے یعنی نیاز عشق کے قابل کہیں جسے زنجیر غم ہے خود مری خواہش کا سلسلہ یا زلف خم بہ خم کہ سلاسل کہیں جسے ملتا ہے مشکلوں سے کسی کے حضور کا وہ ایک لحظہ زیست کا حاصل کہیں جسے کشتی شکستگان یم اضطراب کو تیرا ہی ایک نام ہے ساحل کہیں جسے پاتی نہیں فروغ بجز ...

    مزید پڑھیے

    خزاں سے پیشتر سارا چمن برباد ہوتا ہے

    خزاں سے پیشتر سارا چمن برباد ہوتا ہے غضب ہوتا ہے جب خود باغباں صیاد ہوتا ہے تجھے اس پر گمان‌ نغمۂ صیاد ہوتا ہے قفس میں نالہ کش مرغ گلستاں زاد ہوتا ہے خوشی کے بعد اک تو ہی نہیں ہے مبتلائے غم یوں ہی اکثر جہاں میں اے دل ناشاد، ہوتا ہے روا رکھتا ہے وہ بیداد پہلے اپنی فطرت پر جو ...

    مزید پڑھیے

    گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے

    گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے آخر شب تاریک کا انجام سحر ہے وہ شام کی صورت ہے نہ وہ رنگ سحر ہے کس کوکب منحوس کا یا رب یہ اثر ہے افسانۂ غم سینۂ بلبل میں ہے فریاد اوراق گل تر میں بعنوان دگر ہے بے درد ہے انساں تو ہیں سب اس کے ہنر عیب ہے دل میں اگر درد تو ہر عیب ہنر ہے ثابت ہے بہ ...

    مزید پڑھیے

    اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی

    اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی دام غم حیات میں الجھا گئی امید ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دیں تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی انجام فصل گل ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کا جب مزا ہے کہ دل آپ کا ملے

    ملنے کا جب مزا ہے کہ دل آپ کا ملے ظاہر میں آپ مجھ سے ملے بھی تو کیا ملے یہ آرزو ہے اب نہ رہے کوئی آرزو یہ مدعا ہے اب دل بے مدعا ملے دیتا ہے ترک عشق بتاں کی صلاح تو واعظ خدا کرے کہ نہ تجھ کو خدا ملے خاطر سے میری آپ اٹھائیں نہ غیر کو محفل میں جا ملے نہ ملے دل میں جا ملے دل خاک ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ وعدہ استوار کبھی ہے کبھی نہیں

    وہ وعدہ استوار کبھی ہے کبھی نہیں ہم کو بھی اعتبار کبھی ہے کبھی نہیں یہ دہر سازگار کبھی ہے کبھی نہیں امید ہم کنار کبھی ہے کبھی نہیں ہم رہرو قدیم ہیں اور جانتے ہیں خوب ہموار رہ گزار کبھی ہے کبھی نہیں اس کو عیاں کہیں کہ نہاں یا کچھ اور ہی جو راز آشکار کبھی ہے کبھی نہیں ہو دوست سے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس سے آج برہم ہو گئی ہے

    یہ کس سے آج برہم ہو گئی ہے کہ زلف یار پر خم ہو گئی ہے ٹپک پڑتے ہیں وقت صبح آنسو یہ عادت مثل شبنم ہو گئی ہے بظاہر گرم ہے بازار الفت مگر جنس وفا کم ہو گئی ہے زہے تاثیر کوئے خاک جاناں مرے زخموں پہ مرہم ہو گئی ہے بس اے دست اجل کچھ رحم بھی کر کہ دنیا بزم ماتم ہو گئی ہے نہیں خوف شب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4