ستم کوئی نیا ایجاد کرنا
ستم کوئی نیا ایجاد کرنا تو مجھ کو بھی مری جاں یاد کرنا قیامت ہے دل نالاں قیامت ترا رہ رہ کے یہ فریاد کرنا چلو اب لطف ہی کو آزماؤ تمہیں آتا نہیں بیداد کرنا اسیر زلف ہے محرومؔ ان کا جنہیں آتا نہیں آزاد کرنا
مشہور اردو اسکالر اور شاعر جگن ناتھ آزاد کے والد
Father of famous Urdu scholar and poet Jagannath Azad.
ستم کوئی نیا ایجاد کرنا تو مجھ کو بھی مری جاں یاد کرنا قیامت ہے دل نالاں قیامت ترا رہ رہ کے یہ فریاد کرنا چلو اب لطف ہی کو آزماؤ تمہیں آتا نہیں بیداد کرنا اسیر زلف ہے محرومؔ ان کا جنہیں آتا نہیں آزاد کرنا
کروں میں کس طرح شکوہ کسی سے دل فگاری کا کہ دل بھوکا ہے سو سو زخم کھا کر زخم کاری کا گلستاں پر بڑا احسان تھا ابر بہاری کا نہ ہوتا اس کے دامن میں جو سامان برق باری کا بہاریں بار بار آئیں چمن میں گل کھلے لاکھوں نہ آیا ایک بھی جھونکا ادھر باد بہاری کا کنار سندھ گزری ہے مری اک عمر اے ...
حسیں ہے وہی جس کی سیرت حسیں ہے وہ ظاہر ہے کیا جس کا باطن نہیں ہے ملی استواری اسی کے عمل کو یقیں جس کا محکم ہے عزم آہنیں ہے اڑے لاکھ اوج فلک پر یہ انساں مقام آخر کار زیر زمیں ہے ترا نام تسکیں دہ قلب مضطر تری یاد آرام جان حزیں ہے گیا دور عشق و جوانی ہمارا مگر داغ حسرت ابھی دل نشیں ...
حسن ہے جان غزل اور عشق ایمان غزل کائنات شعر میں ہے خوب سامان غزل سچ کہا ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب جز غزل دیکھا نہیں ہے اور عنوان غزل رند ہے ساغر بدست اور پارسا مست الست سایہ افگن سر پہ دونوں کے ہے دامان غزل تلخیٔ پند و نصائح بھی گوارا ہو گئی حضرت واعظ بھی ہیں ممنون احسان ...
زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے خزاں قدم بہ قدم ہے بہار کیا جانے لکھا ہے اس کے مقدر میں اضطراب دوام قرار کیا ہے دل بے قرار کیا جانے نصیب راحت قرب دوام ہو جس کو وہ لذت خلش انتظار کیا جانے سمجھ رہے ہیں جسے سب گناہ گار یہاں اسی پہ ہو کرم کردگار کیا جانے کئے پہ اپنے ہو خود منفعل بشر ...
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہے جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے کیا بن ...
سورج کے دم قدم سے روشن جہاں ہے سارا ہے اس کی روشنی سے دل کش ہر اک نظارا سورج اگر نہ ہوتا کچھ بھی یہاں نہ ہوتا سبزے کا پھول پھل کا نام و نشاں نہ ہوتا سورج کی روشنی سے ہر چیز خوش نما ہے گو وقت کا ہے خالق پابند وقت کا ہے دل کش ہے چاند کیسا ہر اک کو بھانے والا ہنس ہنس کے آسماں سے دل کو ...
زنداں میں شہیدوں کا وہ سردار آیا شیدائے وطن پیکر ایثار آیا ہے دار و رسن کی سرفرازی کا دن سردار بھگت سنگھ سردار آیا تا دار و رسن شوق سے اٹھلا کے گیا تو شان شہادت اپنی دکھلا کے گیا ٹکڑے ہوتا ہے دل ترے ماتم میں لاشے کا انگ انگ کٹوا کے گیا پی کر مئے شوق جھومنا وہ تیرا بے پروایانہ ...
وطن کے درد نہاں کی دوا سدیشی ہے غریب قوم کی حاجت روا سدیشی ہے تمام دہر کی روح رواں ہے یہ تحریک شریک حسن عمل جا بجا سدیشی ہے قرار خاطر آشفتہ ہے فضا اس کی نشان منزل صدق و صفا سدیشی ہے وطن سے جن کو محبت نہیں وہ کیا جانیں کہ چیز کون بدیشی ہے کیا سدیشی ہے اسی کے سایہ میں پاتا ہے ...
جن سر افرازوں کی روحیں آج ہیں افلاک پر موت خود حیراں تھی جن کی جرأت بے باک پر نقش جن کے نام ہیں اب تک دل غم ناک پر رحمت ایزد ہو دائم ان کی جان پاک پر پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر پھول برساؤ کہ پھولوں میں ہے خوشبوئے وفا تھی سرشت پاک ان کی عاشق جوئے وفا موت پر ان کی گئے جو ...
رنگینیٔ بزم و بو کس کی ہے مرغان چمن میں گفتگو کس کی ہے ہے لالے کے دل میں داغ حسرت کس کا نرگس حیران جستجو کس کی ہے
دروازے پہ تیرے اک جہاں جھکتا ہے اونچے اونچوں کا سر یہاں جھکتا ہے کیوں کر نہ جھکے زمیں میں وقعت کیا ہے با عجز و نیاز آسماں جھکتا ہے
کالا انسان ہو یا کوئی زرد انسان رنگت میں ہو یا چاند کی گرد انسان خارج انسانیت سے اس کو سمجھو انساں کا اگر نہیں ہے ہمدرد انسان
جب کالی گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں ساون کا گیت کوئلیں گاتی ہیں تب یاد میں گزری ہوئی برساتوں کی آنکھیں مری سیل اشک برساتی ہیں
اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو اڑنے کی امنگ لے اڑی انساں کو گولے برسائے زمیں پر اس نے پرواز نصیب جب ہوئی ناداں کو