نورانی مکھڑے والا خریدار کون تھا؟؟
پھر انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور شہر کو چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد ہم نے سوچا کہ ہم تو اس شخص کو جانتے تک نہیں اور وہ ہمارا قیمتی اونٹ قیمت دیے بغیر لے گیا۔کیا معلوم اب اونٹ کی قیمت وصول ہوتی ہے یا نہیں۔
جنت کے پھول
جنت کے پھول
پھر انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور شہر کو چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد ہم نے سوچا کہ ہم تو اس شخص کو جانتے تک نہیں اور وہ ہمارا قیمتی اونٹ قیمت دیے بغیر لے گیا۔کیا معلوم اب اونٹ کی قیمت وصول ہوتی ہے یا نہیں۔
حضرت علی ؓ دینار لے کر اس یہودی کے پاس پہنچے اور اس سے آٹا خریدا۔جب آٹا خرید چکے تو وہ یہودی بولا،’’کیا آپ اس شخص کی بیٹی کے شوہر ہیں جس نے اللہ کا رسول ہونے کا دعوٰیٰ کیا ہے؟‘‘ حضرت علی ؓ نےجواب دیا،’’ ہاں میں وہی ہوں۔‘‘
اس نے جواب دیا:۔۔۔۔۔۔۔’’میں مدینے کے فلاں گھر میں نوکرانی ہوں۔گھر والوں نے مجھے دو درہم دے کر کچھ چیزیں خریدنے بھیجا تھا۔وہ میرے ہاتھ سے گر پڑے اور کہیں گم ہوگئے ۔‘‘ آپ ﷺ نے اس کو دو درہم دیئے اور فرمایا جاؤ جو چیزیں تمہیں خریدنی ہیں خرید کر گھر لے جاؤ۔ اب آپ ﷺ کے پاس چار درہم رہ گئے۔آپﷺ نے ان میں سے دو درہم دے کر ایک کرتا خریدا اور بازار سے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں آپ ﷺ کو ایک بوڑھا آدمی نظر آیاجس کے بدن پر کوئی کپڑا نہ تھاوہ کہہ رہا تھا:
’’ میں سو رہا تھا کہ اس شخص نے مجھ پر تلوار کھینچی اور کہا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟میں نے کہا کہ اللہ۔اس پر اس کےہاتھ سے تلوار گر پڑی اور میں نے اٹھالی۔پھر اس سے کہا اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟تو اس نے معافی مانگی اور کہا کہ مجھ سے بھول ہوئی میری جان بخش دیجئے۔‘‘
’’تم کہو،تجھے اپنے گھر سے نکالاگیا،ہم نے اپنے گھر پناہ دی۔تیرا کوئی مددگار نہیں تھا،ہم نے تیری مدد کی۔ساری دنیا نے تجھے جھٹلایا ہم نے تیری سچائی کی سچے دل سے گواہی دی۔تم یہ جواب دیتے جاؤ گے اور میں کہتا جاؤں گا،تم سچ کہتے ہولیکن اے انصار کے لوگو!کیا تم کو یہ پسند نہیں کے دوسرے لوگ اونٹ بکریاں اور مال ودولت اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم محمدﷺ کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔‘‘
فتح مکہ کے موقع پر قریش کے لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے تھے کیونکہ اس سے پہلے فاتحین جب کسی علاقے کو فتح کرتے تو ان کے مردوں کو قتل کروادیتے اور ان کی عورتوں کو اپنی لونڈیاں بنا لیتے تھے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا!
حضرت محیصہ ؓ نے مدینہ واپس آکر رسول پاک ﷺکے سامنے مقدمہ پیش کیا اور عرض کیا،یارسول اللہ!میرے بھائی کو یہودیوں نے شہید کیا ہے۔
حنین کی لڑائی میں دشمنوں نے گھات میں بیٹھ کر مسلمانوں پر اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں افراتفری پھیل گئی اور اکثر مسلمان لڑائی کے میدان سے ادھر اُدھر ہٹ گئے لیکن رسول پاکﷺ پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے،اس وقت آپﷺ بلند آواز سے فرما رہے تھے: ’’میں اللہ کا نبی ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘
رسول پاک ﷺ بدر کی لڑائی کے لیے روانہ ہوئے تو مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور آپ ﷺ کو ایک ایک آدمی کی سخت ضرورت تھی۔لڑائی سے پہلے دومسلمان حضرت حسیل ؓ اور ان کے بیٹے حضرت حذیفہ ؓآپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
ہمارے پیارے نبیﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ ہر کام میں برابر حصہ لیتے تھے!