Syeda Kauzar Munawar Sharqpuri

سیدہ کوثر منور شرقپوری

سیدہ کوثر منور شرقپوری کی غزل

    ہم نے دیکھا ہے بھرے شہر میں سایا اپنا

    ہم نے دیکھا ہے بھرے شہر میں سایا اپنا ایک سورج ہے پس پشت پرایا اپنا غم کدہ اشک مسلسل سے نہال شب ہے زخم تازہ کو در یار بنایا اپنا چاند سے پار کوئی رات بسیرا ڈالے ہم سے پوچھے ہے کوئی خون بہایا اپنا اب تو ہر شکل یہاں زیب نمائش ٹھہری ہم نے تمثیل نگر ایسا بسایا اپنا دختر مشرق و مغرب ...

    مزید پڑھیے

    حسرت دل کو مار کر دیکھا

    حسرت دل کو مار کر دیکھا بوجھ سارا اتار کر دیکھا وقت ممکن کہاں گزارے تو جیسے میں نے گزار کر دیکھا کوئی میری مدد کو آیا نہیں میں نے سب کو پکار کر دیکھا داغ چہرے پہ رقص کرتے رہے آئنے کو سنوار کر دیکھا وصل تعبیر ہو نہیں سکتا ہجر کا خواب مار کر دیکھا تیری خاطر نہیں جو کرنا ...

    مزید پڑھیے

    وہ دشمن ہو گیا اچھا ہوا ہے

    وہ دشمن ہو گیا اچھا ہوا ہے یہ لمحہ دل پہ اب لکھا ہوا ہے مگر سچ ہے کہ وہ بہکا ہوا ہے مگر اے دل وہ کیوں بہکا ہوا ہے بلائیں لے رہے تھے لوگ سارے مگر بچہ ہے پھر سہما ہوا ہے برا لگتا نہیں اب کوئی کچھ بھی کہ ہم نے سب ہی کچھ دیکھا ہوا ہے کھڑی ہوں دھوپ میں سورج سنبھالے مرا سایہ بڑا پھیلا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی قصہ نیا سنا کر دیکھ

    کوئی قصہ نیا سنا کر دیکھ حرف سے حرف کو ملا کر دیکھ جو بھی چادر بچھا کے بیٹھا ہے اس سے نظریں سبھی ملا کر دیکھ ناگہانی سی اک آفت ہے اس کے باطن کو کچھ گھما کر دیکھ حیلہ گر ہے کسی ندامت میں اس کو رستہ کوئی دکھا کر دیکھ خود پہ ظاہر نہیں ہے جو اک شخص اس کو مصحف کوئی پڑھا کر دیکھ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    مرا ماضی مری نفی ہی تو ہے

    مرا ماضی مری نفی ہی تو ہے ہر قدم پر کوئی کمی ہی تو ہے علم کو روشنی سے کیا مطلب یہ اندھیروں سے دل لگی ہی تو ہے ماسوا تھا نہ ماورا کوئی کوئی طاقت کہیں چھپی ہی تو ہے دل نشیں بات اس کی لو سی تھی شمع امشب وہی جلی ہی تو ہے بات کہنے میں کچھ نہیں کوثرؔ خشک نظروں میں کچھ نمی ہی تو ہے

    مزید پڑھیے

    وکیلوں کی وکالت کر رہی ہوں

    وکیلوں کی وکالت کر رہی ہوں سمجھتی ہوں جہالت کر رہی ہوں مجھے معلوم ہے انجام لیکن زمانے سے شکایت کر رہی ہوں میں قیدی ہوں یا قاعد ہوں تجھے کیا میں ہر صورت قیادت کر رہی ہوں کوئی سمجھے مجھے کیسا بھی اب تو خدا کے گھر عبادت کر رہی ہوں جہاں تعمیر آدم ہو رہی تھی وہاں اب پھر شرارت کر ...

    مزید پڑھیے

    جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو

    جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو اب بتاؤ کہ تم کہاں تک ہو نارسائی ہی جگ ہنسائی ہے ہاں رسائی کی تم کماں تک ہو بات اچھی بھی ہے مگر پھر بھی اس بڑھاپے میں تم جواں تک ہو اپنی موج ہوس کے عرصے میں ٹوٹی کشتی کے بادباں تک ہو آج کے دور میں مکاں کیسا آسمانوں کے آسماں تک ہو اپنی ہستی میں بد ...

    مزید پڑھیے