ہم نے دیکھا ہے بھرے شہر میں سایا اپنا
ہم نے دیکھا ہے بھرے شہر میں سایا اپنا ایک سورج ہے پس پشت پرایا اپنا غم کدہ اشک مسلسل سے نہال شب ہے زخم تازہ کو در یار بنایا اپنا چاند سے پار کوئی رات بسیرا ڈالے ہم سے پوچھے ہے کوئی خون بہایا اپنا اب تو ہر شکل یہاں زیب نمائش ٹھہری ہم نے تمثیل نگر ایسا بسایا اپنا دختر مشرق و مغرب ...