حق سے ہوا تھا کبھی سینۂ عالم گداز
حق سے ہوا تھا کبھی سینۂ عالم گداز مجھ کو سنا دیجئے پھر وہ نوا ہائے راز ذوق طلب ہے تو پھر سود و زیاں سے گزر راہ وفا میں نہ کر فکر نشیب و فراز آ ہی گئی تھی آج نیند سنگ در یار پر بے خودیٔ آرزو عمر ہو تیری دراز پھر دل بیتاب کو چاہئے سوز و گداز مطرب آتش نفس چھیڑ چھیڑ اور اپنا راز کہہ ...