انداز و ادا سے کچھ اگر پہچانوں
انداز و ادا سے کچھ اگر پہچانوں البتہ اسے خدا قائل جانوں کافر مغرور بے کینہ کش بے باک وہ اور خدا کو مانے کیوں کر مانوں
انداز و ادا سے کچھ اگر پہچانوں البتہ اسے خدا قائل جانوں کافر مغرور بے کینہ کش بے باک وہ اور خدا کو مانے کیوں کر مانوں
اخلاص کی دھوکے پر ہوں مائل تیرا سچ تو یہ ہے کہ جانتا ہے مشکل تیرا ریشم کی سی لچھی ہیں سب اعضا تیرے کیوں کر جانوں کہ سخت ہے دل تیرا
پھیلا کے تصور کے اثر کو میں نے مشہور کیا سعیٔ نظر کو میں نے ظاہر در و بام سے ہے نقش رخ دوست بت خانہ بنا رکھا ہے گھر کو میں نے
ناظمؔ اسے خط میں کہتے ہو کیا لکھیے ہم کیا کہیں حال زار اپنا لکھیے ہو جائے گا خط بال کبوتر پہ گراں کیوں سنگ دلی کا شکوہ اتنا لکھیے
گو اس کی نہیں لطف و عنایت باقی ہے اس سے ہمیں ایک حکایت باقی رنجیدہ ہوا وہ بد گمانی سے تو ہو ہے شکوہ نہ کرنے کی شکایت باقی
ہر چند لطف و مہربانی پیش آئے ہرگز کوئی اس شوخ کو ساقی نہ بنائے محفل میں شراب کس کو پہنچی جب جام رخنہ گریٔ مژہ سے چھلنی بن جائے
آ جائے اگر حکم فلک سے ناظمؔ اس حکم کو ہم سنیں ملک سے ناظمؔ ہے اس کو مخالفت مئے ناب کے ساتھ کھولیں گے نہ ہم روزہ نمک سے ناظمؔ