الجھے جو رقیب سے وہ کل پی کے شراب
الجھے جو رقیب سے وہ کل پی کے شراب کہتے ہیں ہوا چاک کشاکش میں نقاب سب جھوٹ نقاب رخ پہ کیوں کر ٹھہری ثابت رکھتا ہے کب کتاں کو مہتاب
الجھے جو رقیب سے وہ کل پی کے شراب کہتے ہیں ہوا چاک کشاکش میں نقاب سب جھوٹ نقاب رخ پہ کیوں کر ٹھہری ثابت رکھتا ہے کب کتاں کو مہتاب
باقی نہ رہی ہاتھ میں جب قوت و زور بن جائے نہ کیوں عقدۂ خاطر ہر پور پیری ہے اگر شب جوانی کی سحر اس صبح کی شام کیا ہے تاریکیٔ گور
عاشق جو ہوا ہے تو کسے پر ناگاہ ہے میری طرح سے حال تیرا بھی تباہ کیا حسن ہے لاغری میں اللہ اللہ جس پر قربان ہو مہ آخر ماہ
ناگاہ مجھے دکھا کے تاب رخسار دین و دل و ہوش لے گئے وہ یکبار آئے نہ دوبارہ کیوں کر آئیں کیوں آئیں سچ ہے کہ تجلی کو نہیں ہے تکرار
سجادہ ہے میرا فلک نیلی فام تسبیح کواکب آفتاب اس کا امام تارے گنتا ہوں میں سحر تک ناظمؔ تسبیح امام تک پہنچ کر ہو تمام
کیا بات ہے کارساز تیری میں کون کیا شان ہے بے نیاز تیری میں کون رکھوں کیا حوصلہ پڑھوں کیا مقدور روزہ تیرا نماز تیری میں کون
یہاں کال سے ہے طرح طرح کی تکلیف فاقوں سے ہوئے ہیں آدمی زار نحیف اس سال میں یا حضرت ماہ رمضاں حاجت کیا تھی کہ آپ لائے تشریف
گو کچھ بھی وہ منہ سی نہیں فرماتے ہیں شیریں سخنی کا ہم مزا پاتے ہیں الفاظ کچھ ان کے منہ میں گرانی ہیں لب کھل نہیں سکتے بند ہو جاتے ہیں
جاناں کو سر مہر و وفا ہے جھوٹ سب کچھ اس نے کہا ہے یا لکھا ہے جھوٹ سب وہ کب لکھتا ہے اور کب کہتا ہے قاصد کہتا ہے یوں کہا ہے جھوٹ سب
گر کہے حلول ہے وہ اک امر قبیح ایسا ہے کچھ اتحاد باطل ہے صریح جب ممکن واجب میں ہوئے عینیت کیوں کر نہ کہوں کہ ہے ہمہ و است صحیح