سید طیب واسطی کی غزل

    ہر طرف پتھر ہی پتھر درمیاں شیشے کا گھر

    ہر طرف پتھر ہی پتھر درمیاں شیشے کا گھر لے رہا ہے شاید اپنا امتحاں شیشے کا گھر دور تک ہر سمت ہیں لاکھوں دھنک بکھرے ہوئے ٹوٹ کر ہے اور بھی کچھ ضو فشاں شیشے کا گھر کیوں گھنے پیڑوں کے سایوں سے بلاتا ہے انہیں بن رہا ہے کیوں مذاق رہ رواں شیشے کا گھر ہے یہ بہتر پتھروں کے دور میں واپس ...

    مزید پڑھیے