Syed Shiban Qadri

سید شیبان قادری

سید شیبان قادری کی غزل

    برا نہ مان کہا ہے یہ میں نے وحشت میں

    برا نہ مان کہا ہے یہ میں نے وحشت میں مرے سلیقہ سے میری نبھی محبت میں نہیں ہے اس کے سوا کچھ مری حکایت میں خوشی کے حرف لکھے میں نے غم کی حالت میں یہ جان کر ہوا مشغول میں تلاوت میں بہت ہے فائدہ خوشبوؤں کی تجارت میں تو ہی بتا کہ میں خود کو کہاں تلاش کروں بچھڑ گیا ہوں میں خود سے تری ...

    مزید پڑھیے

    نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا

    نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا بچھڑ کے تجھ سے بہاروں میں جی نہیں لگتا وہ ماہتاب ہوا جب سے بدلیوں میں قید دمکتے چاند ستاروں میں جی نہیں لگتا ضعیف باپ جواں بیٹوں سے ہراساں ہیں اب اس کا اپنے ہی پیاروں میں جی نہیں لگتا سبھی کو محفل رقص و سرور ہے درکار کسی کا درد کے ماروں میں جی ...

    مزید پڑھیے

    اجالے ہو گئے زندہ مری غمگین آنکھوں میں

    اجالے ہو گئے زندہ مری غمگین آنکھوں میں تم آئے تو سدا کو بس گئی تسکین آنکھوں میں لگایا کاجل عشق اس نے جب شوقین آنکھوں میں سمٹ آئیں سبھی رنگینیاں رنگین آنکھوں میں مہک اٹھتی ہیں جسم و جاں کی افسردہ فضائیں بھی جب آتا ہے پرو کر وہ گل نسرین آنکھوں میں جو ان میں ڈوب جاتا ہے ابھر کر ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پہ رہ نہیں سکتے وہ آن بان کے ساتھ

    زمیں پہ رہ نہیں سکتے وہ آن بان کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں جو رنگ آسمان کے ساتھ تمام دن وہ اندھیروں سے لڑتے رہتے ہیں جو لوگ صبح کو اٹھتے نہیں اذان کے ساتھ وہ مجھ سے رکھتا ہے دوری ہزاروں میلوں کی کھڑی ہے جھونپڑی جس کی مرے مکان کے ساتھ ہمیں پڑھایا گیا ہے یہی تو مکتب میں رویہ منفی نہ ...

    مزید پڑھیے

    آج وہ خوشبو مرے گلزار میں بھی آئے گی

    آج وہ خوشبو مرے گلزار میں بھی آئے گی اس کے آنے سے مہک اشعار میں بھی آئے گی خواب میں دیکھا تھا اس کو یہ تو سوچا بھی نہ تھا وہ مرے کاشانۂ افکار میں بھی آئے گی نابلد ہونا دعائے نوح سے اچھا نہیں کشتیٔ ہستی تری منجدھار میں بھی آئے گی کہہ رہی ہے ریگزاروں سے نئی رت کی ہوا اب بہار بے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی خوابوں کی آنکھوں میں بسائے رکھنا

    روشنی خوابوں کی آنکھوں میں بسائے رکھنا رات گہری ہے بہت شمع جلائے رکھنا اپنی شیشہ لقبی کا ہے تحفظ لازم خود کو پتھر زدہ لہجوں سے بچائے رکھنا تو یہ کیا جانے کہ اس دور جفا پیشہ میں کتنا مشکل ہے تعلق کو بنائے رکھنا جان سے پیاری رہی ہے ہمیں اپنی دستار ہم نے سیکھا ہی نہیں سر کو ...

    مزید پڑھیے

    یہ ستم بھی خوب ٹھہرا لطف فرمانے کے بعد

    یہ ستم بھی خوب ٹھہرا لطف فرمانے کے بعد جلد جانے کا تقاضا دیر سے آنے کے بعد اک قلندر سو گیا ہم کو یہ سمجھانے کے بعد عمر کا شکوہ نہ کرنا عمر ڈھل جانے کے بعد آج بھی اس گل بدن کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں ہو گیا رخصت جو میرے دل کو مہکانے کے بعد داستان دل سبھی کی ملتی جلتی ہے یہاں چھیڑ ...

    مزید پڑھیے

    آسمانوں کی بلندی سے اتر آیا ہوں

    آسمانوں کی بلندی سے اتر آیا ہوں اے زمیں مجھ کو سہارا دے میں گھر آیا ہوں مدتوں بعد پکارا مری وحشت نے مجھے مدتوں بعد میں صحرا میں نظر آیا ہوں دیکھ راہوں میں مری خار بچھانے والے میں ادھر چھوڑ کے گلزار ادھر آیا ہوں سنگ ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہیں احباب یہاں اور میں شانوں پہ سجائے ...

    مزید پڑھیے