سید سروش آصف کی غزل

    میں خوش ہوں اور یہ دنیا دکھی ہے

    میں خوش ہوں اور یہ دنیا دکھی ہے مجھے اس بات پر شرمندگی ہے تمہارے سامنے رستے کھلے ہیں ہمارے سامنے اندھی گلی ہے مرا بستر بھی آخر پوچھ بیٹھا تمہاری نیند سے کیا دشمنی ہے ہمیں بھی اور کچھ کہنا نہیں ہے اسے جانے کی بھی جلدی بڑی ہے سمندر اس لئے مجھ سے خفا ہیں مری اک جل پری سے دوستی ...

    مزید پڑھیے

    کھولا اخبار کا جو دروازہ

    کھولا اخبار کا جو دروازہ لگ گیا خون ہاتھ پر تازہ آہٹیں ڈھونڈھتی ہیں قدموں کو دستکیں ڈھونڈھتی ہیں دروازہ خط میں لکھی ہوئی تھی کچھ باتیں کچھ کا ہم نے لگایا اندازہ سانس منزل سے قبل پھول گیا تیز چلنے کا ہے یہ خمیازہ

    مزید پڑھیے

    میں نے دریا کو نیکیاں دیں ہیں

    میں نے دریا کو نیکیاں دیں ہیں اس نے بدلے میں مچھلیاں دیں ہیں بچے بارش بھی مجھ سے مانگتے ہیں جب سے کاغذ کی کشتیاں دیں ہیں فائدے خودکشی کے سمجھا کر اس نے تحفے میں رسیاں دیں ہیں منتظر ہے مرے اترنے کا جس نے چڑھنے کو سیڑھیاں دیں ہیں زیست کے راز کھولنے کے لیے چند سانسوں کی چابیاں ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں کوئی مجھ جیسا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

    مجھ میں کوئی مجھ جیسا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے یا پھر کوئی اور چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے اس کے ہاتھ میں غبارے تھے پھر بھی بچہ گم سم تھا وہ غبارے بیچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے ایک رسالہ پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھیں بھر آئیں اس میں میرا شعر چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے امبر بھی نیلا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ندی کیوں اس قدر خدشے میں ہے

    یہ ندی کیوں اس قدر خدشے میں ہے کیا کوئی طوفاں کہیں رستے میں ہے جس کی پروازوں کے تھے چرچے بہت وہ پرندہ آج کل پنجرے میں ہے بند جب سے ہو گئی میری گھڑی کتنا سناٹا مرے کمرے میں ہے تم گئے تھے جو ادھوری چھوڑ کر وہ کہانی آج بھی وقفے میں ہے ہے سکوں سے بس وہی ایک آدمی جو برے میں ہے نہ جو ...

    مزید پڑھیے

    ہم سفر بن کے اگر ساتھ بھنور جائیں گے

    ہم سفر بن کے اگر ساتھ بھنور جائیں گے ناخدا ہم تری کشتی سے اتر جائیں گے ڈھونڈ کے لاؤ انہیں جو یہ کہا کرتے تھے وقت کے ساتھ یہ حالات سدھر جائیں گے جن کو کشتی میں بٹھایا تھا توازن کے لیے اب یہ کہتے ہیں کہ رستے میں اتر جائیں گے آزمانے میں کوئی حرج نہیں دنیا کو ہائے کچھ لوگ مگر دل سے ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں ان کی طرح شاد نہیں ہو سکتا

    عشق میں ان کی طرح شاد نہیں ہو سکتا اب کوئی قیسؔ یا فرہادؔ نہیں ہو سکتا میرے استاد نے اکثر یہ کہا ہے مجھ سے وقت جیسا کوئی استاد نہیں ہو سکتا وہ جو ہمدرد ہو صیاد کی تنہائی سے وہ پرندہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتا دشت نے مجھ سے کہا جا تو رہا ہے لیکن تو مجھے چھوڑ کے آباد نہیں ہو سکتا یا ...

    مزید پڑھیے

    جو بات تیرے لب پہ ہے آ کر رکی ہوئی

    جو بات تیرے لب پہ ہے آ کر رکی ہوئی وہ بات میرے دل میں ہے کب سے چبھی ہوئی میں اور وقت مل کے اسے دیکھتے رہے اچھی بہت لگی وہ گھڑی دیکھتی ہوئی ہوتی نہیں ہے میری عبادت میں کیوں شریک ہے کیسی روح میرے بدن میں چھپی ہوئی ایسا کوئی ملا ہی نہیں ہم سے جو کہے مل کر جناب آپ سے بے حد خوشی ...

    مزید پڑھیے

    حقیقت کیا بتاؤں زندگی کی

    حقیقت کیا بتاؤں زندگی کی اسے لت پڑ گئی ہے آدمی کی یہ گھر میں سائیں سائیں سن رہے ہو یہی آواز تو ہے خامشی کی میرے قدموں میں گر کر وقت رویا سوئی الٹی گھمائی جب گھڑی کی کبھی باہر جو نکلے پاؤں میرے تو گھٹنے موڑ کر چادر بڑی کی مجھے جب ڈھونڈنے کوئی نہ آیا تو میں نے خود ہی اپنی مخبری ...

    مزید پڑھیے

    لگوں گا خوش مگر ناراض ہوں میں

    لگوں گا خوش مگر ناراض ہوں میں زمانہ کا نیا انداز ہوں میں بہت خوش ہوں تمہیں خوش دیکھ کر میں یہ غم بھی ہے نظر انداز ہوں میں جسے مجھ پر یقیں بالکل نہیں ہے اک ایسے شخص کا ہم راز ہوں میں اسے انجام کی جلدی بہت تھی میں کہتا رہ گیا آغاز ہوں میں فقط سننا نہیں محسوس کرنا خموشی میں چھپی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3