Syed Safdar

سید صفدر

  • 1946

سید صفدر کی غزل

    میرے موتی ہیں خذف خاک ہے میرا سونا

    میرے موتی ہیں خذف خاک ہے میرا سونا میری تحریر کو آیا نہ قصیدہ ہونا کب تلک سانپ کے پہرے کا تماشا اے دل میرا گھر ہے مرے اجداد کا چاندی سونا آخری داؤ لگانے کی گھڑی آ پہنچی بس بہت کھیل چکے کھیل یہ پانا کھونا میں خداؤں کی صفوں کے ہوں مقابل تنہا دیکھ لے میرے خدا یہ مرا بندہ ہونا اشک ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے بدن سے الجھتی ہو جوالا

    ہوا کے بدن سے الجھتی ہو جوالا کھلے کوئی منظر ہنسے کچھ اجالا اندھیرے کے رتھ سے وہ لے گا نشانہ مرے سر کے پیچھے بنا چاند بالا مگر بھوک کے بال و پر آ گئے ہیں جہاں دانے دیکھے وہاں ہوگا جالا ابھی پیش منظر میں ہے آگ بن کی نہ طاؤس دیکھا نہ ہم نے غزالہ گلابوں کی کرتا رہا آبیاری ہتھیلی ...

    مزید پڑھیے

    بارود کی نالیں نہ جہازوں کی صدائیں

    بارود کی نالیں نہ جہازوں کی صدائیں سوچوں کی کمانوں پہ چڑھے تیر ڈرائیں پھر صاحبو میں اور نگر کھوجنے نکلا تب رنگ اڑاتے تھے زمیں اور ہوائیں اب فیصلہ میں نے بھی کیا خود کو لٹا دوں یاروں سے گزارش ہے مرا ہاتھ بٹائیں میدان کی تہذیب لگے ایک ہیولیٰ منظر کے لیے آنکھ تلاشے ہے ...

    مزید پڑھیے

    آج خوشیاں بھی بانٹ لینا محال

    آج خوشیاں بھی بانٹ لینا محال تیز تر ہے محبتوں کا زوال پر نہ پھیلائیں نور کے پتلے آنچ دیتا ہے آدمی کا جلال ایسے جذبے بھی تھے جو کہتے رہے نطق میں ہو تو کوئی لفظ نکال ڈوبتے بھی ہیں تیرنے والے ایک دھوکا ہے پانیوں کا اچھال اب سخی چھپ گیا ہے کمرے میں بھیڑ کے لب پہ بھی نہیں ہے سوال

    مزید پڑھیے

    نہ بندہ نہ مولا عجب آدمی ہے

    نہ بندہ نہ مولا عجب آدمی ہے مرے شہر کا منتخب آدمی ہے بکھرتے ہوئے لوگ حیراں پریشاں کوئی آدمی رب نہ رب آدمی ہے اٹھائے پھروں ہفت افلاک سر پر زمیں کو شکایت عجب آدمی ہے بھلے لوگ شاعر کو سمجھا رہے ہیں کھرا آدمی بے طلب آدمی ہے کہ تو کون تھا کون ہے کیا بتاؤں نہ انسان تب تھا نہ اب آدمی ...

    مزید پڑھیے

    قرینوں سے ہماری دوستی ہے

    قرینوں سے ہماری دوستی ہے حسینوں سے ہماری دوستی ہے نڈر ہو کر لکیریں بولتی ہیں جبینوں سے ہماری دوستی ہے بہت سادہ بہت پرکار لیکن نگینوں سے ہماری دوستی ہے ملائے یا ہلائے ہاتھ اور بس مشینوں سے ہماری دوستی ہے عوض سگریٹ کے سگریٹ چائے کے چائے مہینوں سے ہماری دوستی ہے ہمارے گھر ...

    مزید پڑھیے

    افق سے دور بہت دور دیکھ سکتا ہوں

    افق سے دور بہت دور دیکھ سکتا ہوں تری زمیں سے بڑی اک زمیں پہ تنہا ہوں وہ خوش ہوا ہے نہ غمگین اس خبر سے مگر ضرور تھا کہ کہوں خیریت سے اچھا ہوں ذرا قریب سے پوچھو کرے گا سرگوشی میں آدمی تو نہیں آدمی کا دھوکا ہوں اگر ہو تیشۂ اندیشہ ہاتھ میں میرے یقین ہوتا ہے میں پربتوں سے اونچا ...

    مزید پڑھیے

    نرمیاں ہیں تمہاری بولی میں

    نرمیاں ہیں تمہاری بولی میں اور پتھر پڑے ہیں جھولی میں سج گئی میری سوچ کی دھرتی رنگ اس نے بھرے رنگولی میں یوں ہوا پھر پگھل گیا منظر صبح سورج اگا جو کھولی میں دھرم جاتی سے آپ کی پہچان آدمی ہے ہماری ٹولی میں میرے دامن کے داغ دیکھے کون سب یہاں ہیں نہائے ہولی میں چار جانب اجالا ...

    مزید پڑھیے