Syed Saddam Gilani Murad

سید صدام گیلانی مراد

سید صدام گیلانی مراد کی غزل

    کئی زخم اب تک سنبھالے ہوئے ہیں

    کئی زخم اب تک سنبھالے ہوئے ہیں قلندر کے سینے پہ چھالے ہوئے ہیں تری حسرتوں کے کئی داغ لے کر مری تیرگی میں اجالے ہوئے ہیں کہ بے چارگی کا مزا ہم سے پوچھو ہم ان کی گلی سے نکالے ہوئے ہیں یہ نغمے یہ آہیں یہ نالے تماشا یہ خون جگر کے نوالے ہوئے ہیں یہ تحریر فن بھی انہیں کا ہے زیور جو آہ ...

    مزید پڑھیے

    آج برسو کہ خواب دھل جائیں

    آج برسو کہ خواب دھل جائیں درد اور اضطراب دھل جائیں برق کا رقص ہو یہاں ساقی دل میں اٹھتے عذاب دھل جائیں میرے نالوں کی پرورش کرنے تم جو آؤ حجاب دھل جائیں وصل کا ہو گلا سیاہی سے اور لکھے وہ باب دھل جائیں کاش چشم حیات رو رو کر آب سے ہو کے آب دھل جائیں شیخ کہتا ہے جھوم کر مجھ سے آؤ ...

    مزید پڑھیے

    قول و قرار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو

    قول و قرار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو لیل و نہار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو خوابوں کا سود لے کے تمنا کی آگ میں چیخ و پکار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو اپنے ہی فلسفوں کا جنازہ نکال کر کچھ سوگوار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو اپنی غزل کا قافیہ لے اس دیار میں لے کر ادھار جلتے ہیں دولت کے رو بہ ...

    مزید پڑھیے

    میں تھا دل میں اور تنہائی ہوئی

    میں تھا دل میں اور تنہائی ہوئی آج کچھ زخموں کی بھرپائی ہوئی جس کی خاطر میں جگا تھا ہجر میں وہ کہیں تھی خواب میں آئی ہوئی میں ہوں دیوانہ وہی پھر بات ہے درد نے ہے روح بھی کھائی ہوئی تیرے دامن کی ہوا ہے خلد سی سانس ہے پھولوں نے مہکائی ہوئی کچھ تصور کو سنو کچھ عشق کو اور کچھ میری ...

    مزید پڑھیے

    درد حد سے گزر گیا ہوگا

    درد حد سے گزر گیا ہوگا تیرا عاشق تو مر گیا ہوگا چھان کر خاک تیرے کوچے کی دیر سے اپنے گھر گیا ہوگا تیری آواز اس کے اندر تھی خامشی سے وہ ڈر گیا ہوگا بوجھ آہوں کا اور نالوں کا اس کے دل سے اتر گیا ہوگا چوم کر ہار تیرے اشکوں کا قبر میں رقص کر گیا ہوگا تیری آہٹ سے کام لیتے ہی باغ ...

    مزید پڑھیے

    عالم کوئے یار باقی ہے

    عالم کوئے یار باقی ہے عاشقوں کا دیار باقی ہے میرؔ کا کھو چکے یہ بد قسمت اور سب کا مزار باقی ہے بزم سے تیری آئے ہیں اٹھ کر آہ اب تک خمار باقی ہے دعویٰ عشق ہے کیا ہم نے حیف دل میں قرار باقی ہے غنچہ و باغ راہ تاکے ہیں اب کے آؤ بہار باقی ہے اپنی تنہائیاں تو گن لی ہیں وحشتوں کا شمار ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے تم ہو اور تم سے ہم بھی ہیں

    ہم سے تم ہو اور تم سے ہم بھی ہیں اور اس کے درمیاں کچھ غم بھی ہیں حالت دل ہے ہماری ضبط میں چشم بے پردہ ہماری نم بھی ہیں شاہ کے در پہ ہیں دیوانے سبھی اور لہراتے ہوئے پرچم بھی ہیں کہہ دیا کہ جاؤ اب تو ہجر ہے پڑ گئے ابرو میں ان کے خم بھی ہیں آج ہے محفل سجی اک درد کی اور زلفیں درہم و ...

    مزید پڑھیے

    تم جو میرے حال سے انجان ہو

    تم جو میرے حال سے انجان ہو جان لو تم ہی تو میری جان ہو بے خودی نے حد پکڑ لی ہے کہیں ان کے آنے کا کوئی امکان ہو شیخ جی واعظ بنے دیکھے جو کل جیسے نظروں میں کوئی شیطان ہو عشق آ کر رقص کرتا ہے یہیں دیکھ کر تم بھی یہی حیران ہو جس گلی میں ہے مری دیوانگی وحشتوں کا اب وہاں اعلان ہو اس ...

    مزید پڑھیے

    دل میں اک داغ ہے سوالوں کا

    دل میں اک داغ ہے سوالوں کا بے خودی رقص ہے نڈھالوں کا ہم سیاہ رات کی اسیری ہیں شوق رکھتے ہیں وہ اجالوں کا وہ یتیموں کے منہ کو نا پہنچے جانے پھر کیا ہوا نوالوں کا کوئی اب حال تک نہ پوچھے ہے ہم نشیں اور ہم پیالوں کا بے خودی بجلیاں قلم‌ کاری کیا کہیں اور ان کے بالوں کا عشق میں کچھ ...

    مزید پڑھیے