Syed Mubarak Shah

سید مبارک شاہ

  • 1961

سید مبارک شاہ کی نظم

    شارٹ کٹ

    ہجوم ہے کہ آگ کے پہاڑ سے گرا ہوا الاؤ ہے کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ ایک پل کو ٹھہر کر بتاؤ تو کہاں چلے ہو، کس طرف ہجوم کیا ہے بے شمار منتشر اکیلے پن کی بھیڑ ہے جو آپ اپنی آہٹوں کے ڈر سے لڑکھڑا گئی غبار نقش پا اٹھا تو جم گیا غلاف چشم و گوش پر یہ قافلہ بھٹک رہا ہے منزلوں کو رکھ کے اپنے دوش ...

    مزید پڑھیے

    تشکر

    خبر نامے کا ساز اور فون کی گھنٹی اکٹھے بج اٹھے تھے اور جتنی دیر میں میں فون تک پہنچا سری نکا میں کشتی کے الٹنے سے تقریباً پانچ سو لوگوں کو لہریں کھا چکی تھیں ہیلو میں ٹھیک ہوں لیکن علی کا کچھ بخار اترا علی علی تو ٹھیک ہے بالکل یہ میرے سامنے بیٹھا کرم ہے میرے مالک کا خدا کی ...

    مزید پڑھیے

    ارتقا

    خاک پر اک بوند لپکی بوند جم کر لوتھڑا اس لوتھڑے میں ہڈیاں پھر ہڈیوں پر ماس آیا ماس جس پر نقش ابھرے نقش کو جنبش ملی اور خامشی کی کوکھ خالی ہو گئی چیخ پہلی گفتگو تھی تھم گئی تو اس سے پھوٹا قہقہہ جب تھک کے ٹوٹا قہقہہ تب آخری آواز سسکی جنبشیں ساکت ہوئیں اور قبر کی خاموشیوں میں نقش ...

    مزید پڑھیے

    بدل گئے ہو

    بدل گئے ہو ذرا سے عرصے میں آہ کیسے بدل گئے ہو تمہیں خبر ہے وہ ہاتھ دھرتی نے کھا لیے ہیں جنہوں نے اپنی ہتھیلیوں میں ہماری خاطر فقط دعائیں بھری ہوئی تھیں تمہیں پتہ ہے وہ ہونٹ مٹی میں جھڑ رہے ہیں ہمارے چہروں پہ جن کے بوسے جڑے ہوئے ہیں وہ آنکھیں اندھی لحد میں شاید بکھر چکی ہوں وہ شب ...

    مزید پڑھیے

    اعراف

    سوالیہ نشان کی قطار میں کھڑے ہوئے مفکرو! جواب دو وہ کون، کیسا، کس لیے، کہاں پہ، کب سے، کب تلک؟ سوال شش جہات کا جواب کوئی اب تلک؟ ''مگر یہاں کشاد چشم و لب کسی کے بس میں ہے سوال تک رسائی جب محال ہے تو ہمت جواب کس کے بس میں ہے وہ کس کی دسترس میں ہے جو معرفت کے لب کھلے تو پتھروں کی بارشوں ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں نابود مت کرنا

    اگرچہ سوت سے تکلے نے دھاگے کو نہ کھینچا تھا مرے ریشے بنت کے مرحلے میں تھے رگیں ماں کی دریدوں سے نہ بچھڑی تھیں میں اپنے جسم سے کچھ فاصلے پر تھا مگر میرے عقیدے کا تعین کرنے والوں نے مرے مسلک کے بارے میں جو سوچا تھا اسے تجسیم کر ڈالا میں جس دم اپنے ہونے پر اتر آیا مجھے تقسیم کر ...

    مزید پڑھیے

    کل کیا ہوگا

    کل کیا ہوگا آنکھ کھلی تو کل کیا ہوگا خواب کو واپس نیند میں رکھ کر نیند کو چھوڑ کے بستر میں جب بستر کو تم چھوڑو گے تو دنیا ہوگی صبح کی دنیا کان اذاں سے بھرنے والی پیر دھرو گے دھرتی پر تو عرش کو سر پہ دھرنے والی سر سے عرش ڈھلکتے لمحے گھر آئے تو دروازے پر دنیا ہوگی رات کی دنیا آنکھ میں ...

    مزید پڑھیے

    اگر کہیں پر لکھا ہوا ہے

    لکھا ہوا ہے ''کسی کا لکھا نہیں رہے گا'' جو حرف دیمک سے بچ رہیں گے انہیں ہواؤں نے چاٹنا ہے کوئی زباں کو قلم بھی کر لے تو کیا کرے گا ابھی تو ہم نے قلم کے ہونٹوں کا کاٹنا ہے نہ کوئی نقطہ نہ حرف کوئی نہ لفظ ہوگا نہ سطر ہوگی سطور کیا ہیں؟ اس انتشار سخن میں بین السطور کچھ بھی نہیں رہے ...

    مزید پڑھیے