Syed Kashif Raza

سید کاشف رضا

نئی نسل کے ممتاز پاکستانی شاعر

Prominent new generation Pakistani poet.

سید کاشف رضا کے تمام مواد

23 غزل (Ghazal)

    بدن کو وجد ترے بے حساب و حد آئے

    بدن کو وجد ترے بے حساب و حد آئے مری رسائی میں گر تیرا جزر و مد آئے میں اک دفعہ تجھے چوموں تو تیرے خوابوں میں کسی بھی مرد کا چہرہ نہ تا ابد آئے میں تیغ عشق سے گر تول دوں بدن تیرا تری نظر میں نہ میزان نیک و بد آئے جو تیرے خواب میں آ جائے برشگال مرا مرے لیے نہ ترے لب پہ رد و کد آئے ہر ...

    مزید پڑھیے

    نگہ کی شعلہ فزائی کو کم ہے دید اس کی

    نگہ کی شعلہ فزائی کو کم ہے دید اس کی چراغ چاہتا ہے لو ذرا مزید اس کی درون دل کسی زخم دہن کشا کی طرح بہت دنوں سے طلب ہے بڑی شدید اس کی ملا تو ہے کوئی بنت عنب سا لب لیکن ہمارے شہر میں ممنوع ہے کشید اس کی اب اس کا حق ہے بہشت بدن پہ جا اٹھنا نگہ ہوئی ہے رہ دید پر شہید اس کی میں سر بہ ...

    مزید پڑھیے

    قرار دیدہ و دل میں رہا نہیں ہے بہت

    قرار دیدہ و دل میں رہا نہیں ہے بہت نظر نواز مرے کوئی گل سریں ہے بہت رکھا نہ ہو کسی خواہش نے سر بہ خوں اس کو تمہارا ہونٹ کئی دن سے آتشیں ہے بہت ملا نہیں ہے مجھے وہ مگر پتا ہے مجھے وہ دوسروں کے لیے بھی بچا نہیں ہے بہت کھلا نہ ایک بھی در سر کشیدگی پہ مری ہوا ہوں خاک تو دامن کشا زمیں ...

    مزید پڑھیے

    پہلوئے غیر میں دکھ درد سمونے نہ دیا

    پہلوئے غیر میں دکھ درد سمونے نہ دیا دامن وصل میں اک ہجر نے رونے نہ دیا رنج یہ ہے کہ مرا درد سے مہکا ہوا تیر اس وفا سوز نے پہلو میں کھبونے نہ دیا عشق وہ شعلۂ سفاک ہے جس نے مجھ پر آگ جاری رکھی اور راکھ بھی ہونے نہ دیا تجھ کو تا ہجر رہا تھا مری وحشت سے گریز اسی وحشت نے تری یاد کو ...

    مزید پڑھیے

    اس پر نگاہ پھرتی رہی اور دور دور (ردیف .. ا)

    اس پر نگاہ پھرتی رہی اور دور دور خوابوں کا ایک باغ نگاہوں میں کھل گیا حیراں بہت ہوا مری آنکھوں میں جھانک کر اور پھر وہ ان میں پھیلتے منظر میں مل گیا کوئی تو شے تھی جو مرے اندر بدل گئی یا زخم کھل گیا کوئی یا کوئی سل گیا خوابوں سے اک خمار میں ملبوس وہ بدن اک رنگ نشہ تھا جو مرے خوں ...

    مزید پڑھیے

تمام

16 نظم (Nazm)

    اگر یہ زندگی تنہا نہیں ہوتی

    اگر یہ زندگی تنہا نہیں ہوتی تو اس کو خوبصورت پھول میں تبدیل کرنے کے لیے کترا نہ جا سکتا کبھی اس سے کوئی کاغذ کی کشتی جوڑ کر گہرے سمندر کی طرف بھیجی نہ جا سکتی سفر کے درمیاں آئی اک انجانی سرائے میں ذرا سے دام کے بدلے اسے ہارا نہ جا سکتا اگر یہ زندگی تنہا نہیں ہوتی تو اس کو مختلف ...

    مزید پڑھیے

    چارلیؔ چپلن

    چارلیؔ چپلن نے کہا اسے بارش میں چلنا پسند ہے کیونکہ تب کوئی اس کے آنسو نہیں دیکھ پاتا اس نے چار شادیاں کیں اور بارہ معاشقے عورتیں اس پر فدا تھیں وہ انہیں کسی بھی وقت جوائے رائڈ دے سکتا تھا جب چارلیؔ کے پیروں میں پھٹے ہوئے جوتے ہوا کرتے تھے ایک عورت نے اس کی محبت مسترد کر دی ...

    مزید پڑھیے

    درخت

    لفظ روز اگ آتے ہیں جنہیں میں اپنے سینے سے کھرچ کھرچ کر کاغذ پر جمع کر دیتا ہوں تاکہ انہیں قطع کیا جا سکے جو بھی میرے لفظ کاٹتا ہے اس کے ہاتھوں پر میرے لہو کی بوند سرکنے لگتی ہے اسے میرے خون سے پہچان لیا جاتا ہے میں ان لفظوں سے کچھ اور بنانا چاہتا تھا مثلاً ایک درخت جسے میں ایک ...

    مزید پڑھیے

    ایک مجسمے کی زیارت

    تم ایک مجسمہ جو فن کار کی انگلیوں میں پروان نہیں چڑھا تم ایک مجسمہ جس پر سنگ مرمر نرم پڑ گیا میں ان انگلیوں کا دکھ جو تمہیں خلق کرنے کے وجد سے نہیں گزرا اور اس دل کا جو کھل نہیں سکا تمہاری پوروں کے ساتھ ساتھ تم آتی جاتی سانسیں میں دکھ ان سانسوں کا جو تم میں شامل نہیں ہوئیں دکھ ان ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے لیے تو یہی ہے!

    ہمارے لیے تو یہی ہے کہ تمہارا جلوس جب شاہراہ سے گزرے تو تم اپنی انگلیوں کی تتلیاں ہماری جانب اڑاؤ اپنی انگلیوں کو ہونٹوں سے چھوتے ہوئے ہماری جانب ایک بوسے کی صورت اچھالو جسے سمیٹنے کے لیے ہم ایک ساتھ لپکیں ہمارے لیے تو یہی ہے کہ تمہارا لباس ہم پر مہربان ہو جائے تم اپنی بگھی سے ...

    مزید پڑھیے

تمام