موج شبنم رگ گلاب سی ہے
موج شبنم رگ گلاب سی ہے خون میں بہہ رہی شراب سی ہے چشم گلگوں سے چھلکے ہیں آنسو ساغر گل میں مئے ناب سی ہے شوخیاں حسن سے ٹپکتی ہیں ہر جھلک تیری ماہتاب سی ہے پھول مہکے ہیں تیری زلفوں کے آج خوشبو حسیں گلاب سی ہے
موج شبنم رگ گلاب سی ہے خون میں بہہ رہی شراب سی ہے چشم گلگوں سے چھلکے ہیں آنسو ساغر گل میں مئے ناب سی ہے شوخیاں حسن سے ٹپکتی ہیں ہر جھلک تیری ماہتاب سی ہے پھول مہکے ہیں تیری زلفوں کے آج خوشبو حسیں گلاب سی ہے
موسم گل ہے اور یاد تری جیسے ساون میں کوندتی بجلی خوشبوؤں میں نہا گئی ہے شب مشک بو زلف تو نے پھر جھٹکی دل میں شہنائیاں سی بجنے لگیں مسکراتی ہوئی جو تو گزری خواب بکھرے ہیں تیری پلکوں پر شبنمی آنکھ پیار میں ڈوبی چھٹکے چھٹکے تھے حسن کے جگنو آنکھ میری جو خواب میں جھپکی مسکرانے ...
چاندنی کا غرور گھٹ جائے تیرے آنچل میں جو سمٹ جائے کون جانے کب آئے گی وہ سحر نیند جس کے لئے اچٹ جائے مے چھلک جائے آبگینوں سے پیتے پیتے ہی رات کٹ جائے دوستی کے حسین اجالوں سے تیرگی نفرتوں کی چھٹ جائے میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں ابھی وقت شاید کبھی پلٹ جائے
ظرف شبنم سے جل گئے آنسو آتش گل میں ڈھل گئے آنسو سوزش غم میں شمع جلتی رہی موم بن کر پگھل گئے آنسو چاندنی تجھ میں کھوئی کھوئی رہی کہکشاں بن کے ڈھل گئے آنسو اک کسک سی رہی رگ دل میں خون میں پھر بدل گئے آنسو کوئی ٹوٹا ہے خواب پیار بھرا پھر یکایک مچل گئے آنسو
سرخ تھے خوں سے اوس کے قطرے پھول کی پنکھڑی پہ جب چھٹکے پھر ترے حسن کے شگوفے کھلے چاندنی مہکی رنگ سے چھلکے پھر نگاہوں میں چھا گئی مستی پھر گھٹا اٹھی زلف کو کھولے خواب تھے تیرے کس قدر رنگیں خلوت شب میں پھول سے برسے تو شبستاں میں مست سوتی رہی چاندنی لے گئی ترے بوسے بجلیوں سے سجی ...
وہ جمال نو عروسی کی پھبن وہ تبسم ریز چشم سرمگیں سنبلیں زلفوں پہ افشاں کی چمک وہ جبیں پر تابش ماہ مبیں شوخیوں کی بجلیاں جذب نظر انکھڑیوں میں جذبۂ ناز آفریں کیف سے لبریز صہبائے شباب خون میں رقصاں شراب آتشیں عارضوں پر چاندنی چھٹکی ہوئی وہ لب گلگوں پہ موج انگبیں حسن سے چھنتی ہوئی ...