Syed Agha Ali Mehr

سید آغا علی مہر

سید آغا علی مہر کی غزل

    ساقیا ہو گرمی صحبت ذرا برسات میں

    ساقیا ہو گرمی صحبت ذرا برسات میں کیا ہی ٹھنڈی ٹھنڈی چلتی ہے ہوا برسات میں رکھ کے اے ساقی خم مے میں بہا دینا مجھے بادہ کش ہوں آئے گی میری قضا برسات میں میری آہیں ہیں دلیل گریۂ بے انتہا جتنی آندھی آئے بارش ہو سوا برسات میں پانچ یہ میرے حواس خمسہ ہیں دو جسم و جاں عشق نے تقسیم ...

    مزید پڑھیے

    اپنا دنیا سے سفر ٹھہرا ہے

    اپنا دنیا سے سفر ٹھہرا ہے گوشۂ‌ قبر میں گھر ٹھہرا ہے ہجر میں زیست کو کہتے ہیں موت نفع کا نام ضرر ٹھہرا ہے دل مرا اس کا طرفدار ہوا جو ادھر تھا وہ ادھر ٹھہرا ہے اور اندھیر ہوا چاہتا ہے سرمہ منظور نظر ٹھہرا ہے لکھ ہوا و ہوس وصل اے دل قاصد باد صبا ٹھہرا ہے دیکھیں دونوں میں ہوا کس ...

    مزید پڑھیے

    بے جرم و بے گناہ غریب الوطن کیا

    بے جرم و بے گناہ غریب الوطن کیا ہم کو وطن سے شاہ غریب الوطن کیا غربت کی شام الفت گیسو میں دیکھیے اس دل نے ہم کو آہ غریب الوطن کیا اس پر نہ پڑتی آنکھ نہ چھٹتا کبھی وطن بس تو نے اے نگاہ غریب الوطن کیا دشمن نہ یوں ہو دوست نے جس طرح سے ہمیں با حالت تباہ غریب الوطن کیا اے مہرؔ ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں سے جو وہ اوجھل ہے

    اپنی آنکھوں سے جو وہ اوجھل ہے دل تڑپتا ہے جان بیکل ہے پھلجڑی ہے ازار بند نہیں ناف سے پاؤں تک جھلا جھل ہے نہ چھلاوے میں ہے نہ بجلی میں تیری رفتار میں جو چھلبل ہے نازکی میں صفا میں بو میں وہ جسم پھول ہے آئنہ ہے صندل ہے ڈور تار شعاع ہے اے مہرؔ آفتاب اس پری کا تکل ہے

    مزید پڑھیے

    ہوش کا اندازہ بے ہوشی میں ہے

    ہوش کا اندازہ بے ہوشی میں ہے یاد کا عالم فراموشی میں ہے مے کدہ مسجد سبو ظرف وضو زہد کا سامان مے نوشی میں ہے جستجو قاتل کی لا حاصل نہیں تن مرا فکر سبکدوشی میں ہے ہے وہ ماہ اے مہرؔ محفل میں کہ بدر کس کو اتنا ہوش مے نوشی میں ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2