تمہارے سامنے ٹھہرے گا ماہتاب کہاں
تمہارے سامنے ٹھہرے گا ماہتاب کہاں حسیں تمہاری طرح سے یہ بے حساب کہاں ہمارے دل کی امنگوں کا حال مت پوچھو اب ایسا بحر کی موجوں میں اضطراب کہاں نگاہ بھر کے تمہیں دیکھنے کی حسرت ہے مگر ہماری نگاہوں میں اتنی تاب کہاں جو اعلی ظرف ہیں وہ خاکسار ہیں سارے گہر ملے تھے یہ دریا مگر حباب ...