سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ
سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ پیری میں نکھارے سے نکھرتا نہیں روپ کر عہد جوانی کو ضعیفی میں نہ یاد اللہ کی قدرت کبھی چھاؤں کبھی دھوپ
سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ پیری میں نکھارے سے نکھرتا نہیں روپ کر عہد جوانی کو ضعیفی میں نہ یاد اللہ کی قدرت کبھی چھاؤں کبھی دھوپ
کب خاک کا مقصود تھا حیراں ہونا فن کف آذر سے پریشاں ہونا تخلیق کا آخر یہ مقدر ٹھہرا مخلوق کا ہنس کھیل کے ویراں ہونا
بے ہمت کھلتے نہیں عقدے پر پیچ اے جوش جنوں سنبھل ہیں رشتے پر پیچ اس بھول بھلیاں سے نہ گھبرا اے دل ہوتے ہیں بلندیوں کے رستے پر پیچ
اشعار میں ہنگامۂ کل باندھ دیا ہم نے صف انجم رگ گل باندھ دیا جب تک جئے دنیا تو برا کہتی تھی موت آئی تو تعریف کا پل باندھ دیا
حسن بت مر مر ہے کہ تن چاندی کا یہ خواب ہے یا اصل بدن چاندی کا بیٹھا ہی تھا دم بھر ترے پہلو میں سراجؔ پہنا دیا موت نے کفن چاندی کا
ٹھوکر مجھے در در کی کھلا کے چھوڑا تقدیر نے یوں ہوش اڑا کے چھوڑا یہ قصر دل و جاں تھا حسیں لیکن اسے اک روز اجل نے بھی مٹا کے چھوڑا
یہ رزم گہہ فن یہ بلاغت کا محاذ گفتار سنبھل کہ ہے فصاحت کا محاذ آسان سمجھئے نہ رباعی کہنا مقتل گہہ شاعر ہے شہادت کا محاذ
افسانۂ ظلم اپنا مکمل کر دو گلزار محبت کو جنگل کر دو غم باندھ لیا دل سے تمہاری خاطر اب چہرہ دکھا کر مجھے پاگل کر دو
عقبیٰ کی خلش سینۂ دنیا کی خراش آئینۂ شاعر میں ہر اک راز ہے فاش وہ ذہن دو عالم سے اتر جاتا ہے جو شخص نہیں پیکر احساس تراش
یہ کون بغل گیر ہوا خوشبو کی طرح آنکھوں کے گہر جاگ اٹھے جگنو کی طرح احساس کی اس بارہ دری پر اب تک اک چاند سلگ رہا ہے آنسو کی طرح