سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ
سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ پیری میں نکھارے سے نکھرتا نہیں روپ کر عہد جوانی کو ضعیفی میں نہ یاد اللہ کی قدرت کبھی چھاؤں کبھی دھوپ
سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ پیری میں نکھارے سے نکھرتا نہیں روپ کر عہد جوانی کو ضعیفی میں نہ یاد اللہ کی قدرت کبھی چھاؤں کبھی دھوپ
کب خاک کا مقصود تھا حیراں ہونا فن کف آذر سے پریشاں ہونا تخلیق کا آخر یہ مقدر ٹھہرا مخلوق کا ہنس کھیل کے ویراں ہونا
بے ہمت کھلتے نہیں عقدے پر پیچ اے جوش جنوں سنبھل ہیں رشتے پر پیچ اس بھول بھلیاں سے نہ گھبرا اے دل ہوتے ہیں بلندیوں کے رستے پر پیچ
اشعار میں ہنگامۂ کل باندھ دیا ہم نے صف انجم رگ گل باندھ دیا جب تک جئے دنیا تو برا کہتی تھی موت آئی تو تعریف کا پل باندھ دیا
حسن بت مر مر ہے کہ تن چاندی کا یہ خواب ہے یا اصل بدن چاندی کا بیٹھا ہی تھا دم بھر ترے پہلو میں سراجؔ پہنا دیا موت نے کفن چاندی کا