Sheikh Ibrahim Zauq

شیخ ابراہیم ذوقؔ

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور ملک الشعرا۔ غالب کے ساتھ ان کی رقابت مشہور ہے

Poet laureate of the Mughal Court and mentor of Bahadur Shah Zafar. His 'poetic' rivalry with Ghalib is well known.

شیخ ابراہیم ذوقؔ کی غزل

    اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ

    اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ ورنہ جگر کو روئے گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ چھوڑا نہ دل میں صبر نہ آرام نے قرار تیری نگہ نے صاف کیا گھر کے گھر پہ ہاتھ کھائے ہے اس مزے سے غم عشق میرا دل جیسے گرسنہ مارے ہے حلوائے تر پہ ہاتھ خط دے کے چاہتا تھا زبانی بھی کچھ کہے رکھا مگر کسی نے دل ...

    مزید پڑھیے

    مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے

    مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے would be a joy if you were there face to face with me then flowers would, in springtime, seek you longingly مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے if the joys of death in love, paramours narrate Jesus and Khizr too will for death eagerly wait غرض تھی کیا ترے تیروں کو ...

    مزید پڑھیے

    خوب روکا شکایتوں سے مجھے

    خوب روکا شکایتوں سے مجھے تو نے مارا عنایتوں سے مجھے واجب القتل اس نے ٹھہرایا آیتوں سے روایتوں سے مجھے کہتے کیا کیا ہیں دیکھ تو اغیار یار تیری حمایتوں سے مجھے کیا غضب ہے کہ دوست تو سمجھے دشمنوں کی رعایتوں سے مجھے دم گریہ کمی نہ کر اے چشم شوق کم ہے کفایتوں سے مجھے کمیٔ گریہ نے ...

    مزید پڑھیے

    وقت پیری شباب کی باتیں

    وقت پیری شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں in old age talk of youth now seems to be just like the stuff of dreams پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو دل خانہ خراب کی باتیں Lo! there again it takes me see! my ruined heart's advice to me واعظا چھوڑ ذکر نعمت خلد کہہ شراب و کباب کی باتیں on heaven's virtues don't opine O preacher talk of food and wine مہ جبیں یاد ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا

    جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا تری گلی سے نکلتے ہی اپنا دم نکلا رہے ہے کیوں کہ گلستاں سے عندلیب جدا دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بت کافر تو چیخ اٹھے موذن جدا خطیب جدا جدا نہ درد جدائی ہو گر مرے اعضا حروف درد کی صورت ہوں اے طبیب جدا ہے اور علم و ...

    مزید پڑھیے

    سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے

    سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے گھر سے باہر نہ نکلتا کبھی اپنے خورشید ہوس گرمیٔ بازار لیے پھرتی ہے وہ مرے اختر طالع کی ہے واژوں گردش کہ فلک کو بھی نگوں سار لیے پھرتی ہے کر دیا کیا ترے ابرو نے اشارہ قاتل کہ قضا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی ...

    مزید پڑھیے

    دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں

    دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں شمع ہے اک سوزن گم گشتہ اس کاشانہ میں میں ہوں وہ خشت کہن مدت سے اس ویرانے میں برسوں مسجد میں رہا برسوں رہا مے خانہ میں میں وہ کیفی ہوں کہ پانی ہو تو بن جائے شراب جوش کیفیت سے میری خاک کے پیمانہ میں برق خرمن سوز دانائی ہے نافہمی تری ورنہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    آتے ہی تو نے گھر کے پھر جانے کی سنائی

    آتے ہی تو نے گھر کے پھر جانے کی سنائی رہ جاؤں سن نہ کیونکر یہ تو بری سنائی مجنوں و کوہ کن کے سنتے تھے یار قصے جب تک کہانی ہم نے اپنی نہ تھی سنائی شکوہ کیا جو ہم نے گالی کا آج اس سے شکوے کے ساتھ اس نے اک اور بھی سنائی کچھ کہہ رہا ہے ناصح کیا جانے کیا کہے گا دیتا نہیں مجھے تو اے بے ...

    مزید پڑھیے

    اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے

    اک صدمہ درد دل سے مری جان پر تو ہے لیکن بلا سے یار کے زانو پہ سر تو ہے آنا ہے ان کا آنا قیامت کا دیکھیے کب آئیں لیکن آنے کی ان کے خبر تو ہے ہے سر شہید عشق کا زیب سنان یار صد شکر بارے نخل وفا بارور تو ہے مانند شمع گریہ ہے کیا شغل طرفہ تر ہو جاتی رات اس میں بلا سے بسر تو ہے ہے درد دل ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے

    آنکھ اس پرجفا سے لڑتی ہے جان کشتی قضا سے لڑتی ہے شعلہ بھڑکے نہ کیوں کہ محفل میں شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے شور قلقل یہ کیوں ہے دختر رز کیا کسی پارسا سے لڑتی ہے نہیں مژگاں کی دو صفیں گویا اک بلا اک بلا سے لڑتی ہے نگۂ ناز اس کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4